روایت ہی نقل کرے گا؟ اس نے کہا:
’’میں نے سنن صحیحہ کا اہتمام کیا ہے۔‘‘
ہمارے شیخ نے مصدر بالا (۱۰/۵۴۱) میں حدیث رقم (۴۹۰۰)[1] کے تحت فرمایا:
وہ حدیث جسے اس شیعی نے اپنی ’’مراجعات‘‘ (ص۱۷۸) میں صرف خطیب کی روایت سے ذکرکیا ہے، اس نے اپنی عادت کے طور پر اس پر سکوت اختیار کیا ہے، بلکہ اس نے یوں کہتے ہوئے اس کو دلیل بنایا ہے:
’’ابو الحسن نبی کی طرح کیوں کر حجت ہوں گے؟ اگر وہ اپنے عہد کے ولی نہ ہوں، اور آپ کے بعد صاحب امر نہ ہوں؟!‘‘
اسے کہا جائے گا: پہلے تخت ثابت کر پھر نقش و نگار کر، وہ حدیث نقاد امام ذہبی کی شہادت کی وجہ سے باطل ہے، اگر یہ اس کے نزدیک اس کی صفت شیعہ ہونے کی وجہ سے حجت نہ ہو، تو پھر اسے کیا پروا ہے کہ وہ یہ اور اس جیسی دسیوں روایات سے اہل السنہ کے خلاف دلیل لے، وہ اور اس جیسے ائمہ اہل السنہ کے نزدیک حجت ہیں؟! بس یہی نہیں، بلکہ وہ یہ وہم ڈالتا ہے کہ وہ صرف اسے دلیل بناتا ہے جو ان (اہل السنہ) کے نزدیک صحیح ہو، جبکہ فی الواقع وہ اس کی تکذیب کرتا ہے، فاللّٰہ المستعان!
۲:… اس کا بعض احادیث کو بعض مصادر کی طرف منسوب کرنے کا دعویٰ جبکہ وہ اس طرح نہیں ہیں:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۵۱۱) میں حدیث رقم (۴۸۸۹)[2] کے تحت فرمایا:
تنبیہ:… سیوطی نے حدیث ترجمہ کو ’’الجامع الکبیر‘‘ (۲: ۱۵۸/۱) میں صرف ابن النجار کی طرف منسوب کیا ہے! وہ اس پر استدراکاً کہتا ہے کہ اسے ابن عساکر نے بھی روایت کیا ہے۔
رہا عبدالحسین الشیعی کا اپنی کتاب ’’المراجعات‘‘ (ص۱۶۹) میں، اس کے بعد کہ اس نے اسے ’’الکنز‘‘ سے نقل کرتے ہوئے ابن النجار کی طرف منسوب کیا،کہنا:
’’اس کے علاوہ اصحاب السنن سے۔‘‘
یہ جھوٹ اور جعل سازی ہے! اصحاب السنن میں سے کسی ایک نے بھی اسے روایت نہیں کیا، ان سے مراد اصحاب ’’السنن الاربعۃ‘‘: ابوداود، نسائی، ترمذی ، ابن ماجہ ہیں! اور وہ یہ قارئین کو بھٹکانے اور حدیث کو تقویت پہنچانے کے لیے کرتا ہے!
|