’’پہلا حصہ اشاعرہ کا موقف ہے۔ جبکہ دوسرا معتزلہ نے کہا ہے، جبکہ درست یہ ہے کہ ان دونوں کے متعلق ایک ساتھ تفصیل سے کہا جائے جسے مؤلف رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے مکمل طور پر نقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
آپ رحمہ اللہ نے ’’مجموع فتاویٰ‘‘ (۸/۳۷۱۔۳۷۶) میں فرمایا:
’’ہمارے اصحاب میں سے کچھ لوگوں نے اور کچھ دیگر لوگوں نے ’’بندے کی استطاعت‘‘ کے بارے میں کلام کیا ہے: کیا وہ اس کے فعل کے ساتھ ہے یا اس سے پہلے ہے؟ اور انہوں نے اسے دو متضاد قول قرار دیا ہے، کچھ لوگوں نے استطاعت کو صرف فعل کے ساتھ قرار دیا ہے، اور یہ زیادہ تر تقدیر کو ثابت کرنے والوں کا موقف ہے جسے اشعریوں اور ہمارے ساتھیوں میں سے ان سے موافقت کرنے والوں نے اختیار کیا ہے، کچھ لوگوں نے استطاعت کو فعل سے قبل قرار دیا ہے اور یہ زیادہ تر تقدیر کی نفی کرنے والے معتزلہ اور شیعہ کا موقف ہے، پہلے موقف والوں نے قدرت کو یہ قرار دیا کہ وہ صرف ایک فعل کے لیے درست ہے، جب کہ وہ اس (فعل) کے ساتھ لگی ہوئی ہے اس سے الگ نہیں کی جاسکتی، جبکہ دوسرے موقف والوں نے استطاعت کو یہ قرار دیا کہ وہ دو متضاد چیزوں کے لیے درست ہے، اور وہ کبھی بھی فعل کے ساتھ نہیں ہوتی، جبکہ قدریہ انحراف کرنے میں بڑھ کر ہیں، وہ منع کرتے ہیں کہ کسی حال میں بھی قدرت فعل کے ساتھ ہو، ان کا موقف یہ ہے: ضروری ہے کہ مؤثر اثر سے مقدم ہو وہ کسی حال میں بھی اس کے ساتھ نہیں ہوگا، قدرت، ارادہ اور امر اس میں برابر ہیں۔
اور درست وہ ہے جس پر کتاب و سنت کی دلالت ہے یہ کہ استطاعت فعل پر مقدم ہے اور اس کے ساتھ بھی ہے، اور اس کے ساتھ دوسری استطاعت بھی ہے جو اس کے علاوہ کسی اور کے لیے درست نہیں، پس استطاعت کی دو قسمیں ہیں: دو مخالف چیزوں کے لیے صحیح ہو اور ان سے پہلے ہو، اور موازنہ صرف فعل کے ساتھ ہی ہوتا ہے، پس وہ فعل کے لیے درست اور جائز قرار دینے والی ہے، اور یہی فعل کو لازم قرار دینے والی ہے، اس سے فعل ثابت ہوتا ہے…‘‘[1]
۸:… اشاعرہ اور غضب و رضا کی انتقام اور ارادے سے تاویل:
امام طحاوی رحمہ اللہ نے ’’اپنے عقیدے‘‘ فقرہ (۹۲) میں فرمایا:
’’اللہ ناراض ہوتا ہے اور راضی ہوتا ہے، لیکن مخلوق میں سے کسی کی طرح نہیں۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’طحاویۃ‘‘ (ص۸۱) پر اپنے تبصرے میں فرمایا:
|