کوئی کہہ سکتا ہے: ہو سکتا ہے کہ وہ شیعی ’’الواھیات‘‘ کتاب کے موضوع کے متعلق نہ جانتا ہو، تو ہمیں اس کے متعلق برا گمان نہیں رکھنا چاہیے، اور ہمیں حتمی طور پر نہیں کہنا چاہیے کہ اس نے حدیث کو اس کی طرف منسوب کرنا عمداً ترک کر دیا جو آپ نے ذکر کیا!
میں جواب میں عرض کرتا ہوں: میں اسے اس سے دور تصور کرتا ہوں، اگر ہم نے اسے تسلیم کر لیا، تو ہم نے اسے اس کے متعلق سوء ظن سے بچا لیا، اور اسے لاعلم قرار دے دیا، جس سے اس علم کے مبتدی بھی احتراز کرتے ہیں، پس برابر ہے خواہ یہ ہو یا وہ !ان دونوں میں سے جو زیادہ شیریں ہے وہ کڑوا ہے!
اس شیعی کی طرف منسوب اس جہل نے مجھے ایک مزاحیہ واقعہ یاد کرا دیا، اس کا خلاصہ یہ ہے: کہ کسی گاؤں میں ایک خطیب نے اپنے خطبے میں ایک حدیث ذکر کی اور اس کے بعد کہا: ابن الجوزی نے اسے ’’الموضوعات‘‘ میں روایت کیا ہے‘‘ !!
(۶)… تاریخ کے مدار پر شیعہ کے تین ائمہ ابن المطہر، خمینی اور عبدالحسین کی طرف سے جھوٹ، انہوں نے ایک موضوع روایت سے علی رضی اللہ عنہ کی امامت و ولایت کے ثبوت کا دعویٰ کیا ہے:
ہمارے شیخ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۵۳۸۔۵۴۰) میں حدیث رقم (۴۸۹۹)[1] کے تحت بیان کیا:
وہ حدیث جس کا شیعہ بہت ذکر کرتے ہیں اور اسے اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں، یہ ان کا امام ابن مطہر الحلی ہے، اس نے اسے ’’الفردوس‘‘کی روایت سے اپنی کتاب جس کا اس نے نام ’’منھاج الکرامۃ فی اثبات الإمامۃ‘‘ رکھا، (ص۸۱۔۸۲) (تحقیق ڈاکٹر محمد رشاد سالم) میں نقل کیا اور کہا:
’’اور ابو نعیم نے اس کی مانند روایت کیا، اور وہ (روایت) ان کی ولایت و امامت کے ثبوت میں صحیح ہے۔‘‘
عبدالحسین نے ’’المراجعات‘‘ (ص۵۵) میں پھر خمینی نے ’’کشف الاسرار‘‘ میں اس کی تقلید کی اور اس (خمینی) نے کذب و افتراء میں ان دونوں پر برتری حاصل کی کہ اس نے کہا:
’’اہل السنہ کے نزدیک اس بارے میں سات احادیث وارد ہیں۔‘‘
پھر اس نے صرف ایک حدیث ذکر کی اس نے کہا کہ ابراہیم الحموی نے ابو ہریرہ تک اس کی سند بیان کی۔
یہ ابراہیم الحموی کون تھے؟ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا، میرا نہیں گمان کہ خمینی خود اسے جانتا ہو، پس جب اس کی بات درست ہو کہ وہ اہل السنہ میں سے ہے، تو ہو سکتا ہے کہ وہ ابراہیم بن سلیمان الحموی ہو، جس کے سوانح حیات
|