Maktaba Wahhabi

261 - 756
ہوئے کہتا ہے: ’’اس (ابوبکر) کے لیے غار میں (ساتھ رہنے کی) کوئی فضیلت نہیں، اس لیے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سے بچنے کے لیے اسے اپنے ساتھ رکھا تاکہ وہ آپ کے معاملے کو ظاہر نہ کر دے …‘‘! شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’منھاج‘‘[1] (۴/۲۳۹۔۲۷۳) میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس کا رد کیا ہے، پس جو زیادہ علم و فائدہ چاہتا ہے وہ اس کی طرف رجوع کرے۔ ہمارے شیخ نے ’’اسی مصدر‘‘ (۱۰/۶۷۰۔۶۷۱) میں حدیث رقم (۴۹۵۷)[2] کے تحت فرمایا: تنبیہ:… شیعی نے اس حدیث سے دلیل لیتے ہوئے اسے ’’المراجعات‘‘ میں ذکر کیا اور کوئی حوالہ نقل نہیں کیا، اس نے بس یہ ذکر کیا ہے کہ وہ ’’الکنز‘‘ کی احادیث میں سے ہے (۶/ ۳۹۶) اس کا صرف اس پر اکتفا کرنا اس کی نہ ختم ہونے والی فریب کاریوں میں سے ہے، قاری … بلکہ اکثر قارئین … کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس کا بھید پا سکیں، کیونکہ یہ اس کی عادت ہے کہ وہ زیادہ تر کسی حدیث کو نقل کرتا ہے اور اسے حدیث کے کسی امام کی طرف منسوب کر دیتاہے، گویا کہ وہ کہتاہے: اسے احمد اور طبرانی اور…، نے روایت کیا ہے۔ پھر وہ زیادہ تر اس مصدر کا ذکر کرتا ہے جس سے اس نے نقل کیا ہے، جیسے مثال کے طور پر ’’الکنز‘‘۔ اس کا غالب عمل یہی ہے، تو پھر اس نے اس حدیث کا ان کے حوالے سے مخرّج (حوالہ) کیوں نہیں نقل کیا؟ یہ اس لیے، کہ اگر وہ ایسا کرتا تو اس کا بھید کھل جاتا، یہ کہ ’’الکنز‘‘ جس جگہ کی طرف اس شیعی نے خود اشارہ کیا ہے وہاں انہوں نے بیان کیا ہے: ’’رواہ ابن الجوزی فی ’’الواھیات‘‘ میں نے کہا: ہر وہ شخص جس نے حدیث کی ادنی سی واقفیت حاصل کی ہے، اور اس کو اس (حدیث) کے متعلق تصنیف شدہ کتب کا علم ہے، وہ جانتا ہے کہ ’’الواھیات‘‘ ابن الجوزی کی کتاب ہے جسے انہوں نے واہی اور منکر روایات کے لیے مختص کیا ہے، جو ان کے نزدیک درجہ وضع تک نہ پہنچیں،اور زیادہ تر ایسے ہی ہے، ورنہ وہ بعض موضوع روایات بھی اس میں ذکر کرتے ہیں، جیسا کہ حفاظ نے اس سے آگاہ کیا ہے۔ پس حدیث کو ’’الواھیات‘‘ کی طرف منسوب کرنا اس کو ضعیف قرار دینا ہے، اسی لیے اس شیعی نے ’’الکنز‘‘ سے ابن جوزی کی ’’الواھیات‘‘ میں روایت کو نقل نہیں کیا۔[3]
Flag Counter