آخر پر میں جناب شیخ کی خدمت میں ایک سوال پیش کرتا ہوں ان کی طرف سے اس کا جواب اس مسئلے میں نزاع کا فیصلہ کردے گا، میں کہتا ہوں:
جناب شیخ! کیا یہ جائز ہے کہ آپ سنن مؤکدہ مساجد میں باجماعت ادا کریں، اگر آپ نے کہا: جائز نہیں (اور آپ کے بارے میں یہی گمان ہے) تو ہم کہیں گے: یہ کیوں جائز نہیں جبکہ وہ عام نصوص میں داخل ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ‘‘ (دیکھئے: صحیح الجامع: ۷۹۲۱) ’’اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔‘‘
اگر آپ نے کہا: اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کیا۔ (ہم نہیں کرتے) تو ہم کہیں گے: آپ نے سچ فرمایا، پس آپ پر لازم آتا ہے کہ آپ ذکر کو عدد مخصوص کے ساتھ جو کہ منقول نہیں جائز قرار نہ دیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (مخصوص) نہیں کیا، اور اگر وہ نص مطلق میں داخل ہے، تو نص مطلق یہاں ذکر موصوف کو اس صفت کے ساتھ شامل نہیں جو کہ منقول نہیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ کا عموم سنن مؤکدہ کی جماعت کو شامل نہیں اس لیے کہ وہ ایسی صفت سے متصف ہے جو کہ منقول نہیں۔
اور اگر آپ نے جواز کے متعلق کہہ دیا، تو اگر آپ نے دو امور کے درمیان فرق کردیا تو پھر آپ تضاد کا شکار ہیں، اور یہ چیز ہم آپ کے لیے اور نہ کسی اور مسلمان کے لیے چاہتے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ جو کچھ بیان ہوا اس نے آپ کے لیے وہ راہ واضح کردی ہے جو آپ کے لیے درست بات کی طرف رجوع کو آسان بنا دے گی، ان شاء اللہ! اور وہی ہدایت دینے والا ہے۔
۳: عبادت میں کسی مقید طریقے کی پابندی، جس کی تمام لوگ کسی دلیل کے بغیر پابندی کرتے ہیں، مشروع نہیں
ابن الصلاح رحمہ اللہ نے ’’المساجلۃ‘‘ (ص۲۱) میں صلاۃ الرغائب کے متعلق اپنا دفاع کرتے ہوئے فرمایا، کہ وہ جائز ہے:
’’اس (صلاۃ الرغائب) میں عدد خاص کے ساتھ قصد کے بغیر جو تقیید ہے… وہ اس شخص کی طرح ہے جو ہر روز قرآن کے ساتویں یا چوتھے حصے کی قرا ء ت کی تقیید کرتا ہے اور جس طرح عابد حضرات اپنے اوراد کی تقیید کرتے ہیں جنھیں وہ اختیار کرلیتے ہیں، وہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے، واللہ اعلم۔‘‘
ہمارے شیخ نے ’’المساجلۃ‘‘ (ص۲۱) کے حاشیے میں اس سوچ کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا:
اگر یہ تقیید عمل کی ترتیب کے لیے اس حیثیت سے ہو کہ اسے ایک طریقہ نہ بنالیا جائے کہ تمام لوگ اس کی
|