یہ دو طرح سے کذب ہے:
اوّل… صحیح بخاری میں یہ نص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نہیں اور نہ آپ کے علاوہ دیگر اسلاف سے منقول ہے۔
دوم … حافظ ابن حجر نے اسے بخاری پر اپنی شرح (۱/۳۸۸۔ المطبعۃ البہیۃ) میں عروہ سے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا:
’’ابن ابی شیبہ نے عروہ بن زبیر سے روایت کیا، کہ وہ زمین/مٹی کے علاوہ کسی اور چیز پر نماز پڑھنا ناپسند فرماتے تھے۔‘‘
میں نے کہا: شیعہ کے اکاذیب اور ان کی امت پر تدلیس ان گنت ہے، میں نے مثال کے طور پر اس حدیث کی تخریج کی مناسبت سے اس رسالے میں کچھ بیان کرنے کا ارادہ کیا، ورنہ وقت اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے کہ اسے ان کے تعاقب میں ضائع کیا جائے۔
۷… نماز میں اللہ اکبر کہتے ہوئے آواز کو کھینچنا
ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۲/۱۵۵) میں حدیث رقم (۶۰۴) کے تحت بیان کیا: ان کا یہ کہنا: ’’جس وقت وہ دو رکعتوں میں بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو وہ اللہ اکبر کہتے۔‘‘ یعنی: قیام کی ابتداء کے وقت، اور حافظ نے ’’الفتح‘‘ (۲/۲۲۰۔ السلفیۃ) میں اس کی اس طرح تفسیر کی ہے۔
ہمارے شیخ نے فرمایا… رہا نووی کا ’’شرح صحیح مسلم‘‘ (۴/۹۹) میں قول:
’’اور ان کا کہنا: ’’وہ جس وقت سجدے کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر اللہ اکبر کہتے…‘‘ یہ تکبیر کو ان حرکات کے ساتھ ملانے اور اس (تکبیر) کو اس (حرکت) پر لمبا کرنے پر دلیل ہے، پس وہ اللہ اکبر کہنا شروع کرے گا جس وقت وہ رکوع وغیرہ کی طرف انتقال شروع کرے گا حتی کہ وہ رکوع کی حالت تک پہنچ جائے گا… وہ تشہد اوّل سے قیام کے لیے تکبیر شروع کرے گا جس وقت وہ منتقل ہونا شروع کرے گا، اور وہ اس (آواز) کو لمبا کرے گا حتی کہ وہ صحیح طرح کھڑا ہو جائے گا!‘‘
حافظ نے اس کے بعد (۲/۲۷۳) فرمایا:
’’اس لفظ کی اس دراز کرنے پر، جو انہوں نے ذکر کیا، دلالت ظاہر نہیں۔‘‘
میں(شیخ البانی) نے کہا: اس سے بھی زیادہ عجیب بعض شوافع کا اس تکبیر کو لمبا کرنا ہے جس وقت وہ دوسرے سجدے سے اٹھتے وقت اللّٰہ اکبر کہتے ہیں، اور وہ دوسری رکعت میں کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس کے درمیان جلسہ استراحت (جو کہ سنت ہے) کے لیے بیٹھتے ہیں، تم اس (شافعی کے پیروکار) کو دیکھو گے کہ وہ اللّٰہ اکبر کو اتنا
|