تم نے دیکھا کہ اسناد اوّل ابن سیرین کے طریق سے ہے، اور دوسری محمد کے طریق سے، اور وہ ابن سیرین ہیں، لہٰذا وہ حقیقت میں ایک اسناد ہے، لیکن یزید بن ابراہیم نے ان کے حوالے سے کہا: ’’مجھے خبر دی گئی‘‘ پس اس نے ثابت کیا کہ ابن سیرین نے اسے مسروق سے بالواسطہ اخذ کیا، اور ابن عون نے اسے ثابت نہیں کیا، جو روایت کیا گیا اس میں وہ دونوں ثقہ ہیں، البتہ یزید بن ابراہیم نے سند میں کچھ اضافہ بیان کیا ہے، پس واجب ہے کہ اسے قبول کیا جائے جیسا کہ وہ ’’المصطلح‘‘ میں طے شدہ ہے، کیونکہ جس نے حفظ کیا وہ اس کے خلاف حجت ہے جس نے حفظ نہ کیا، اس پر بنیاد رکھتے ہوئے اس کی اسناد مسروق تک ضعیف ہے، وہ قابل حجت نہیں، کیونکہ اس کا مدار ایک ایسے راوی پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا، وہ مجہول ہے، اس کی مسروق … اللہ اس سے راضی ہو اور اس پر رحم فرمائے … کی طرف یقین کے ساتھ نسبت کرناجائز نہیں جیسا کہ اس شیعی نے کہا۔
۴۔ الشیعی نے اس اثر میں ایک ایسا اضافہ داخل کیا جس کی ’’المصنف‘‘ میں کوئی بنیاد نہیں، وہ اس کا یہ کہنا ہے: ’’مدینہ منورہ کی مٹی سے‘‘! اس کا ان کے ہاں دونوں روایتوں میں کوئی ذکرنہیں جیسا کہ آپ نے دیکھا۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس شیعی نے اس اثر میں اس اضافہ کو کیوں گھڑا ہے؟ اس پر واضح ہو گیا کہ اس میں ارض مبارکہ (مدینہ منورہ) سے ٹکیہ بنا کر اس پر سجدہ کرنے کے بارے میں کوئی مطلق دلیل نہیں، جب اس نے اسے اس پر چھوڑا جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیا، اسی لیے اس نے اس کے ساتھ اس اضافہ کو ملایا تا کہ قارئین کو وہم ڈال سکے کہ مسروق رحمہ اللہ نے مدینہ سے بطور تبرک ٹکیہ لی تا کہ اس پر سجدے کریں، تو جب اسے یہ ثابت ہوا تو اس نے پاکی و برکت میں دونوں زمینوں کے جامع اشتراک کی وجہ سے کربلا کی زمین/ مٹی سے ٹکیہ بنانے کو جواز بنایا!!
جب تم نے جان لیا کہ مقیس علیہ (جس پر قیاس کیا گیا) باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، وہ صرف شیعی کی گھڑت ہے! تو تم نے جان لیا کہ مقیس (جس کو قیاس کیا گیا) بھی باطل ہے! کیونکہ جیسا کہ کہا گیا: کیا سایہ اور ٹیڑھی لکڑی سیدھے ہو سکتے ہیں؟!
قاری محترم! غور کریں شیعہ جھوٹ بولنے پر کس قدر جرأت کرتے ہیں تاکہ اس گمراہی کی تائید کریں جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول دیا، ائمہ میں سے جس نے ان کے متعلق یہ فرمایا: ’’رافضی سب سے زیادہ جھوٹے ہیں‘‘! اس کی صداقت تم پر واضح ہو چکی ہو گی!
اس کے جھوٹ میں سے اس کا یہ کہنا (ص۹):
’’ ’’صحیح بخاری‘‘ صحیفہ! (۳۳۱ ج۱) میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمین/ مٹی کے علاوہ کسی اور چیز پر نماز پڑھنا ناپسند فرماتے تھے!‘‘
|