کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب پر افتراء کے متعلق قاری محترم کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ وہ اسے مسلمانوں کے مصادر میں سے کسی معروف مصدر کی طرف منسوب نہ کر سکا، سوائے کتاب ’’الأرض والتربۃ الحسینیۃ‘‘ کے، اور وہ ان کے بعض متاخرین کی کتب میں سے ہے اور مؤلف ان میں سے غیرمعروف ہے، اور معاملہ یہ ہے کہ وہ شیعی اس کا نام بتانے کی جرأت نہ کرسکا، تاکہ اس کے ذکر کرنے سے اس کے اکاذیب کے مصدر کے متعلق اس کا معاملہ کھل نہ جائے!
اس نے سلف اوّل پر بیان کردہ جھوٹ پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے اسے ان کے بعد والوں پر جھوٹ باندھنے تک بڑھا دیا، اس کے تمام کلام سابق کو غور سے سنو:
’’ان میں سے ایک فقیہ کبیر مسروق بن اجدع المتوفی ۶۲ھ ہیں جن کی شخصیت پر سب متفق ہیں، وہ صحاح ستہ کے راویوں میں سے ایک عظیم تابعی ہیں، وہ دوران سفر مدینہ منورہ کی مٹی سے بنی ہوئی ایک کچی اینٹ ساتھ رکھتے تھے اور وہ اس پر سجدہ کرتے تھے، جیسا کہ اسے شیخ المشائخ الحافظ امام السنۃ ابو بکر ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ’’المصنف‘‘ جلددوم میں ’’من کان یحمل فی السفینۃ شیئا یسجد علیہ‘‘ کے الفاظ سے ایک باب مقرر کیا ہے، انہوں نے دو اسناد سے اسے روایت کیا ہے کہ مسروق جب سفرکرتے تھے تو وہ کشتی میں مدینہ منورہ کی مٹی سے بنی ہوئی ایک اینٹ اپنے ساتھ رکھتے تھے اور وہ اس پر سجدہ کرتے تھے۔‘‘
میں نے کہا: اس کلام میں متعدد جھوٹ ہیں:
۱۔ اس کا کہنا: ’’وہ اپنے سفروں میں رکھتے تھے۔‘‘ وہ اپنے اطلاق کے ساتھ خشکی کے سفر کو بھی شامل ہے، اور وہ اس اثر کے خلاف ہے جو اس نے ذکر کیا ہے!
۲۔ اس کا یقین کے ساتھ کہنا کہ وہ یہ کیا کرتے تھے، اس سے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ان سے ثابت ہے جبکہ اس طرح نہیں ہے، بلکہ ضعیف منقطع ہے جیسا کہ اس کا بیان آئے گا۔
۳۔ اس کا کہنا:’’…دو اسناد سے۔‘‘ جھوٹ ہے، وہ تو ایک اسناد ہے اس کا مدار محمد بن سیرین پر ہے، اس میں اس پر اختلاف ہے، ابن ابی شیبہ نے اسے ’’المصنف‘‘ (۲/۴۳/۲) میں یزید بن ابراہیم، عن ابن سیرین کے طریق سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: ’’مجھے خبر دی گئی کہ مسروق کشتی میں اپنے ساتھ ایک کچی اینٹ لے جاتے تھے، یعنی وہ اس پر سجدہ کرتے تھے۔‘‘
اور ابن عون عن محمد کے طریق سے: ’’کہ مسروق جب سفر کرتے تھے تو وہ کشتی میں اپنے ساتھ ایک کچی اینٹ لے جاتے تھے وہ اس پر سجدہ کرتے تھے۔‘‘
|