اس مختصر جملہ کے متعلق یہ تیز بات جس نے عام تو کیا بہت سے خاص لوگوں کو بھی فتنے میں مبتلا کر دیا اور وہ فی الواقع اس طرح ہے: ﴿کَسَرَابٍ بِّقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَائً﴾ (النور: ۳۹) ’’سراب کی مانند جو کسی چٹیل میدان میں ہو، پیاسا شخص اسے پانی خیال کرتا ہے۔‘‘ میں نے علامہ ابن بادیس کی تفسیر میں اس کے متعلق ایک نہایت ہی مفید بحث پڑھی تھی۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ میں براء بن عازب سے مروی حدیث رقم (۸۱) کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا، وہ روایت اس طرح ہے: ((اَللّٰہُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ…))
ہمارے شیخ نے ’’ریاض الصالحین‘‘ (ص۷۲) پر حاشیے میں بیان کیا: یعنی: میں نے اپنے نفس کو تیرا مطیع کر دیا، تیرے حکم کے تابع کر دیا، ’’فَوَّضْتُ أَمْرِی اِلَیْکَ‘‘ ’’میں نے اپنے تمام امور میں تجھ پر توکل کیا کہ ’’وَأَلْجَأْتُ‘‘ یعنی: میں نے اپنے امور میں تجھ پر اعتماد کیا تا کہ تو میرے لیے نفع مند چیز پر میری مدد فرمائے، ’’رَغْبَۃً وَ رَھْبَۃً اِلَیْکَ‘‘ ’’یعنی: تیری عطاء وثواب کی امید رکھتے ہوئے اور غضب و عقاب (سزا) سے ڈرتے ہوئے۔
میں نے کہا: اس میں اس شخص کے قول کے بطلان کی طرف اشارہ ہے جو اللہ سے مناجات کرتے ہوئے یوں کہتا ہے: ’’میں نے تیری جنت کی امید سے تیری عبادت کی نہ تیری جہنم کی آگ سے ڈرتے ہوئے …‘‘ بے شک اس طرح کی بات وہی شخص کرتا ہے جو حقیقی طور پر اللہ کی معرفت نہیں رکھتا، غور کریں۔
۲۰:… صوفیاء کا کہنا: شریعت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن:
ہمارے شیخ نے ’’مختصر صحیح البخاری‘‘ (۱/۶۰) رقم (۷۹) میں اس مقولے کے بدعت ہونے کی وضاحت کی ہے۔
ہمارے شیخ نے ’’المشکاۃ‘‘ (۱/۸۹) میں حدیث رقم (۲۷۱) پر تعلیق بیان کرتے ہوئے کہا، اس کی نص یہ ہے:
((حَفِظْتُ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وِعَائَ یْنِ : فَأَمَّا أَحَدُھُمَا فَبَثَثْتُہُ فِیْکُمْ،وَ أَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُہُ قُطِعَ ھٰذَا الْبَلْعُوْمَ))
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم کے) دو برتن لیے، ان میں سے ایک کو میں نے تم میں پھیلا دیا، رہا دوسرا تو اگر میں اسے پھیلا دوں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے۔‘‘
بخاری نے اسے ’’الفتن‘‘ میں نقل کیا ہے، یہ آپ رحمہ اللہ کی طرف سے اشارہ ہے، کہ اس حدیث کا علم ظاہر اور علم باطن سے کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ صوفیاء گمان کرتے ہیں، ورنہ وہ اسے کتاب العلم میں نقل کرتے، اس حدیث کی مفصل شرح کے لیے حافظ ابن حجر کی ’’فتح الباری‘‘ دیکھیں۔
|