اور یہ قول پر اس شخص کو لازم آتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، [1] اور رب العالمین الحکیم الحلیم کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے یہ سب سے باطل قول ہے، اسی لیے بعض سلف نے کہاہے: ہم یہود و نصاریٰ کا کلام تو بیان کرسکتے ہیں لیکن جہمیہ کا کلام نقل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
بعض علمائے کلام پر اس قول کا بطلان واضح ہوا، تو وہ اس سے بھی زیادہ باطل قول کی طرف بھاگ نکلے، اور میں نے اسے بعض خطباء سے جمعہ کے دن منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا:
اللہ اوپر ہے نہ نیچے، دائیں ہے نہ بائیں، آگے ہے نہ پیچھے، جہان کے اندر ہے نہ اس سے باہر، بعض فلسفیوں نے یہ اضافہ کیا: اس سے متصل ہے نہ اس سے جدا!
اور یہ وہ تعطیل مطلق ہے جو کسی فصیح ترین شخص کے لیے ممکن نہیں کہ وہ عدم کو اس سے زیادہ متصف قرار دے جس سے انہوں نے اپنے رب کو متصف قرار دیا ہے، وہ جو کہتے ہیں اللہ اس سے بہت پاک و برتر ہے! اللہ اس عقلمند امیر پر رحم فرمائے جس نے جب بعض علمائے کلام سے یہ سنا تو فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ربّ کو کھو بیٹھے۔‘‘
اسی لیے بعض علماء نے کہا:
’’مجسم صنم کو پوجتا ہے، جبکہ معطل عدم کی پوجا کرتا ہے، مجسم کو رات کے وقت نظر نہیں آتا، جبکہ معطل نابینا ہے …‘‘[2]
۲:… جہمیہ اور صفات باری تعالیٰ کے حقائق کا انکار: [3]
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مختصر العلو‘‘ (ص۳۸) میں شیخ ابن عبد البر کا قول نقل کیا، انہوں نے فرمایا:
’’ابن عبد البر نے فرمایا: اہل السنہ کتاب و سنت میں آنے والی صفات کے اقرار اور انہیں حقیقت پر، نہ کہ مجاز پر، محمول کرنے پر متفق ہیں، البتہ انہوں نے اس میں سے کسی چیز کی کیفیت و حالت مقرر نہیں کی، رہے جہمیہ، معتزلہ اور خوارج تو وہ سب ان (حقائق صفات باری) کا انکار کرتے ہیں، وہ ان میں سے کسی چیز کو حقیقت پر محمول نہیں کرتے، اور وہ کہتے ہیں جس نے ان کا اقرار و اثبات کیا وہ مشبہہ ہے، اور وہ ان کے اقرار کرنے والے کو معبود کی نفی کرنے والا تصور کرتے ہیں۔‘‘
|