Maktaba Wahhabi

159 - 756
چکھا، پوچھیے، کہ کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو، تم تو محض ظن و گمان کی پیروی کرتے ہو اور محض اٹکل سے باتیں بناتے ہو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا درج ذیل فرمان اس کی تفسیر بیان کرتا ہے: ﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo﴾ (الاعراف:۳۳) ’’کہہ دیجیے کہ میرے رب نے تو بے حیائی کی باتیں خواہ کھلی ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کے کام اور ناحق کی زیادتی اور یہ بات کہ تم اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرو جس کے حق میں اس نے کوئی سند و دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ اللہ پر وہ باتیں کہو جن کا تمہیں کوئی علم نہیں، حرام قرار دیا ہے۔‘‘ تو اس بیان سے ثابت ہوا کہ وہ ظن، جس سے اخذ کرنا جائز نہیں، وہ لغوی ظن ہے جو کہ اندازہ و تخمین کے مترادف ہے اور علم کے بغیر قول، احکام میں اس کے ساتھ حکم اسی طرح حرام ہے جس طرح عقائد میں اس سے اخذ کرنا حرام ہے اور (ان دونوں میں) کوئی فرق نہیں۔ جب معاملہ اس طرح ہے تو پھر پیچھے بیان کردہ قول ہمارے حق میں ہوا کہ تمام آیات اور مذکورہ بالا احادیث احکام میں آحاد حدیث کے ساتھ اخذ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں، وہ اپنے عموم کی وجہ سے ان کے ساتھ عقائد میں اخذ کرنے کے وجوب پر بھی دلالت کرتی ہیں، اور حق بات یہ ہے کہ آحاد حدیث کے ساتھ عقیدہ و احکام میں وجوب اخذ کے بارے میں فرق کرنا ایک فلسفہ ہے جو اسلام میں داخل کردیا گیا ہے، جسے سلف صالح جانتے ہیں نہ وہ چاروں امام جانتے ہیں جن کی بہت سے مسلمان دور حاضر میں تقلید کرتے ہیں۔ ٭ عقیدہ سے متعلق ان کی بنا وہم و خیال پر ہے (احادیث آحاد سے اخذ نہیں کرتے): آج عاقل مسلمان ایک بڑی عجیب بات سن رہا ہے، وہ یہ بات ہے جسے بہت سے خطباء اور مصنّفین جب بھی حدیث کے ساتھ تصدیق کے حوالے سے ان کا ایمان کمزور پڑتا ہے تو وہ اسے بار بار دہراتے ہیں، حتیٰ کہ خواہ وہ اہل علم کے نزدیک حدیث کے ذریعے متواتر ہو جیسے آخری زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی روایت، کیونکہ وہ اپنے قول: ’’حدیث آحاد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘‘ کے ذریعے چھپتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا یہ قول بذات خود عقیدہ ہے، جیسا کہ میں نے ایک مرتبہ ان لوگوں میں سے جن سے میں نے اس مسئلے کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا، ایک آدمی سے کہا، اور اسی پر بنیاد رکھتے ہوئے کہا، ان پر لازم ہے کہ وہ اس قول کے صحیح ہونے پر کوئی قطعی دلیل پیش کریں، ورنہ وہ اس بارے میں تضاد برتنے والے ہوں گے، افسوس در افسوس! ان کے پاس
Flag Counter