کہ وہ صحیح یا ضعیف ہونے کے حوالے سے حدیث کے حال کی معرفت حاصل کرسکے، جبکہ یہ اس صورت میں ممکن نہیں جب وہ شخص اس کی اسناد حذف کردے اور اس کے حال کے بارے میں کوئی چیز ذکر نہ کرے، تو اس نے علم کو چھپایا جسے پہنچانا اس کی ذمہ داری تھی۔
ابن الصلاح کے نزدیک ضعیف حدیث روایت کرنے کا طریقہ
اسی لیے ابن الصلاح نے جو پہلے بیان ہوا اس پر اس طرح تنقید و تبصرہ کیا:
’’جب آپ اسناد کے بغیر ضعیف حدیث روایت کرنے کا ارادہ کریں تو یوں نہ کہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا اور اس سے مشابہ حتمی الفاظ (جن سے ظاہر ہوتا ہو) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا، آپ اسے ان الفاظ کے ساتھ روایت کریں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح روایت کیا گیا، یا آپ سے ہمیں اس طرح پہنچا، پس جس روایت کی صحت و ضعف کے بارے میں آپ کو شک ہو تو اس کے متعلق اس طرح حکم ہے لہٰذا آپ (حتمی الفاظ کے ساتھ) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘ اس روایت کے بارے میں کہہ سکتے ہیں … جس کا صحیح ہونا آپ پر ظاہر ہو۔‘‘[1]
ضعف کی تصریح ضروری ہے
میں کہتا ہوں کہ ثابت ہوا کہ تب حدیث کا ضعف بیان کرنا ضروری ہے جب اس کی اسناد ذکر نہ ہوں، خواہ اس طریق سے ہو جس پر انہوں نے اصطلاح مقرر کی ہے؟ جیسے : ’’رُوِیَ‘‘ ’’روایت کیا گیا‘‘ اور اسی طرح کے الفاظ، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج یہ کافی نہیں، کیونکہ جہالت عام ہے، ہوسکتا ہے کہ کوئی مؤلف کی کتب یا منبر پر خطیب کے قول ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا کہ آپ نے یہ اور یہ فرمایا ‘‘سے سمجھ نہ پائے کہ وہ حدیث ضعیف ہے، لہٰذا اس کی تصریح ضروری ہے، جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں وارد ہے، فرمایا:
’’لوگوں سے وہ باتیں بیان کرو جنہیں وہ پہچانتے ہیں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے۔‘‘ (مختصر صحیح البخاری، رقم:۸۳)
شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے ’’الباعث الحثیث‘‘ (ص:۱۰۱) میں کیا ہی خوب کہا:
’’میں جو سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ضعیف حدیث کا ضعف بیان کرنا ہر حال میں ضروری ہے، کیونکہ ترک بیان اس پر مطلع ہونے والے کو وہم میں ڈال سکتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، خاص طور پر جب نقل کرنے والا ان علمائے حدیث میں سے ہو جن سے اس بارے میں مشورہ کیا جاتا ہو یا اس بارے میں ان کے قول کی طرف رجوع کیا جاتا ہو، اس لیے کہ ضعیف حدیث سے احکام اور فضائل اعمال اخذ کرنے کے
|