Maktaba Wahhabi

447 - 756
فرماتے، جس کی وہ صحت نہیں جانتے، جیسا کہ وہ واضح ہے مخفی نہیں۔ یہ جو ملاحظہ ہے بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے، میں چاہتا ہوں کہ (ان شاء اللہ) اس مفید رسالے پر تعلیق و تشریح ختم نہ کروں مگر اختصار سے اسے اپنے مسلمان بھائیوں پر پیش کردوں، حالانکہ معلوم ہے کہ اس میں گفتگو کی بہت گنجائش ہے، لیکن اس جگہ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ ﴿اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ﴾ (ق:۳۷) ’’بے شک اس میں اس شخص کے لیے نصیحت ہے جس کے پاس دل ہو یا اس نے پوری توجہ سے بات سنی ہو۔‘‘ ۶۔ پندرہ رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنا اور ہر رکعت میں مسلسل پندرہ سورتوں میں سے ایک ایک آیت تلاوت کرنا اور ہر رکعت میں ایک مخصوص دعا کرنا: ابن الصلاح رحمہ اللہ نے ’’المساجلۃ‘‘ (ص۱۸) کے حاشیے میں بیان کیا: ’’…اگر کوئی انسان مثلاً رات کے کسی حصے میں ایک سلام کے ساتھ پندرہ رکعتیں پڑھے اور وہ ہر رکعت میں مسلسل پندرہ سورتوں میں سے ایک آیت پڑھے اور ہر رکعت میں ایک مخصوص دعا پڑھے تو یہ نماز مقبول ہے، مردود نہیں، کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے: یہ بدعتی نماز مردود ہے، اس لیے کہ اس کے متعلق اس طریقے کے خلاف کتاب و سنت سے کوئی دلیل وارد نہیں۔‘‘ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’المساجلۃ‘‘ (ص۱۸) کے حاشیے میں ابن الصلاح کے کلام پر ردّ کرتے ہوئے فرمایا: ’’بلکہ وہ بدعتی نماز مردود ہے، کسی کو اس کی نماز کا قصد نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس کیفیت سے اس کی کوئی اصل نہیں، اور یہ دعویٰ کہ اس کی اصل ہے، فائدہ مند نہیں، کیونکہ بحث کیفیت کے بارے میں ہے اصل کے متعلق نہیں، اور یہ طے شدہ ہے کہ وہ ایک نیا کام ہے اور اس نص کے عموم کے حوالے سے، جس میں ہر بدعت کی مذمت کی گئی ہے، واجب ہوتا ہے کہ وہ گمراہی ہو، کہا گیا ہے کہ یہ نماز جسے امام شاطبی نے ’’الاعتصام‘‘ میں بدعت اضافیہ کا نام دیا ہے، اور اس کے مقابل بدعت حقیقی ہے، اور وہ پہلی سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔‘‘ ۷۔ (دوران سفر) ہر میل پر دو رکعت پڑھنا: ابونعیم نے ابوالعباس الشعرانی احمد بن محمد بن جعفر الزاہد الجمال کے ترجمے (سوانح حیات) میں بیان کیا: ’’وہ حج کی رغبت رکھنے والے بندوں میں سے تھے اور وہ ہر میل پر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘
Flag Counter