Maktaba Wahhabi

466 - 756
۳: جب یہ ثابت ہوا کہ محاریب کا نصاریٰ کے گرجا گھروں میں معمول ہے، تو پھر محراب سے کلی طور پر صرف نظر کرلینی چاہیے اور اس کی جگہ ایسی چیز لانی چاہیے جس پر اتفاق ہو، مثلاً امام کے کھڑے ہونے کی جگہ پر کوئی لکڑی کھڑی کرلینی چاہیے، کیونکہ اس کی اصل سنت میں موجود ہے۔ طبرانی نے ’’الکبیر‘‘ (۱/۸۹/۲) اور ’’الأوسط‘‘ (۲/۲۸۴/۹۲۹۶) میں دو طریق سے عبد اللہ بن موسیٰ التیمی، عن اسامۃ بن زید، عن معاذ بن عبد اللہ بن خبیب عن جابر بن اسامۃ الجہنی کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے اصحاب کی موجودگی میں بازار میں ملاقات کی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے پوچھا: آپ کہاں جارہے ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ آپ کی قوم کے لیے مسجد کی نشان دہی فرمائیں گے، میں واپس آیا، تو میں نے لوگوں کو کھڑے دیکھا، میں نے کہا: تم کس لیے کھڑے ہو؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مسجد کی نشان دہی فرمائی ہے، اور قبلہ کی سمت میں ایک لکڑی گاڑ دی اور اسے وہاں قائم رکھا۔‘‘ میں نے کہا: یہ اسناد حسن ہے یا حسن کے قریب ہے، اس کے سارے رجال ثقہ ہیں اور وہ ’’التہذیب‘‘ کے معروف راویوں میں سے ہیں، لیکن تیمی مختلف فیہ ہے۔ ہیثمی پر ان میں سے ایک کا نام محرف ہوگیا، انہوں نے ’’المجمع‘‘ (۲/۱۵) میں بیان کیا: ’’طبرانی نے اسے ’’الأوسط‘‘ اور ’’الکبیر‘‘ میں روایت کیا، اور اس میں معاویہ بن عبد اللہ بن حبیب ہے، اور میں نے اس کے سوانح حیات میں نہیں پایا۔‘‘ وہ تو معاذ ہے، معاویہ نہیں، اور ابن خبیب ہے، ’’حبیب‘‘ نہیں، حافظ نے اسے ’’الإصابۃ‘‘ (۱/۲۲۰) میں امام بخاری رحمہ اللہ کی ان کی ’’التاریخ‘‘ میں روایت سے، ابن ابی عاصم اور طبرانی سے نقل کیا ہے۔ اور سیوطی کے رسالے پر تبصرہ کرنے والے پر، اور وہ شیخ عبد اللہ غماری ہیں، یہ حقیقت مخفی رہی، انہوں نے معاویہ بن عبد اللہ کی وجہ سے حدیث کی علتوں میں ہیثمی کا کلام نقل کردیا اور اسے تسلیم کیا۔ خلاصہ کلام: مسجد میں محراب بدعت ہے، اسے مصالح مرسلہ میں شمار کرنا جائز نہیں، جب تک اس کے علاوہ جو ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع قرار دیا ہے وہ وسعت، قلت کلفت اور تزئین کاری سے بُعد کے ساتھ اس کے قائم مقام ہے۔ ۹: منبر کی تین سے زائد سیڑھیاں ’’الأجوبۃ النافعۃ‘‘ (ص۱۲۰) ’’صفۃ الصلوۃ‘‘ (ص۸۱)، ’’الثمر المستطاب‘‘
Flag Counter