(۱/۴۱۳۔۴۱۴)۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صفۃ صلوٰۃ النبی صلي الله عليه وسلم ‘‘ (ص۸۱) میں فرمایا:
منبر کے حوالے سے سنت یہ ہے کہ اس کی تین سیڑھیاں ہوں، زیادہ نہیں، اس سے زائد اموی بدعت ہے، جو زیادہ تر صف درمیان آجانے کی وجہ سے اسے کاٹ دیتے ہیں اور اس سے فرار اسے مسجد یا محراب کے غربی کونے میں بنانا ایک دوسری بدعت ہے، اسی طرح اسے جنوبی دیوار میں گیلری کی طرح اونچا بنانا، دیوار سے متصل زینے کے ذریعے اس تک پہنچا جاتا ہے، جبکہ بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے‘‘ صلی اللّٰہ علیہ والٰہ وسلم۔ دیکھیں: ’’فتح الباری‘‘ (۲/۳۳۱)
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الثمر المستطاب‘‘ (۱/۴۱۳۔۴۱۴) میں … امت کی خیر خواہی کے لیے … فرمایا: جو شخص مسجد بنانا چاہے تو وہ جس قدر ہوسکے ستون کم از کم بنائے۔
اسی لیے میں کہتا ہوں: جو شخص کوئی مسجد یا کوئی جامعہ بنانا چاہے تو وہ انجینئر سے کہے کہ وہ اس کے لیے ایسا نقشہ تیار کرے جس میں ستون کم از کم ہوں، تاکہ ان کے مساجد میں ہونے کی وجہ سے جو صفوں کے قطع ہونے اور نمازیوں کے لیے جگہ کی تنگی ہونے کے مفاسد ومسائل ہیں وہ کم ہوسکیں، کیونکہ دور حاضر میں سیمنٹ اور لوہے (لینٹر) کے ذریعے کسی ستون کے بغیر مسجد بنانا ممکن ہے بشرطیکہ مسجد بہت زیادہ وسیع نہ ہو، دمشق میں اس طرح کی کئی مساجد بنائی گئی ہیں جیسے شارع بغداد پر مسجدلالا باشا، المہاجرین[1] میں جامع المرابط وغیرہ، ان دونوں میں ساری صفیں متصل ہیں سوائے پہلی صفوں کے کیونکہ وہ اس بدعت کی وجہ سے جو کہ تقریباً تمام مساجد میں عام ہوچکی ہے منقطع ہیں جو کہ افسوس ناک ہے، اس سے میری مراد بلند و بالا طویل کئی زینوں والا منبر ہے، وہ بدعت ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہے، آپ کے منبر کے تین زینے تھے، مزید یہ کہ اس میں تزئین، نقش و نگار، اسراف اور مال کا ضیاع ہے[2] تو وہ صفیں قطع کرنے میں ستون کے مانند ہے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ نقصان دہ
|