ہے، کیونکہ وہ اپنے طول کے حساب سے بہت ساری صفوں کو قطع کرتا ہے، لہٰذا علماء پر واجب ہے کہ وہ اسے واضح کریں، وہ اپنے دروس و مواعظ میں ان منبروں کو ہٹانے اور ان کی جگہ اس طرح کے منبر بنانے کی تلقین کریں جس طرح کا منبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، اور یہ ان پر بھی واجب ہے جن کے ہاتھ میں اس امر کے نفاذ کا اختیار ہے تاکہ وہ نمازیوں کو اس کے مفاسد سے بچائیں۔
اس کے مفاسد، جو ستونوں میں نہیں پائے جاتے، میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بعض اوقات نماز کی خرابی اوراس کے بطلان تک پہنچا دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے اس کا کئی بار مشاہدہ کیا ہے، بہت سے لوگ اس پر اتفاق کریں گے کہ امام تشہد اوّل میں بیٹھنا بھول جاتا ہے اور وہ تکبیر کہتے ہوئے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے اور جو اس کے پیچھے ہوتے ہیں وہ بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور رہے وہ جو دائیں طرف منبر کے پیچھے ہیں، انھیں امام کے بھول جانے کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ اس نے درست اللہ اکبر کہا ہے، وہ تشہد کے لیے بیٹھ جاتے ہیں جبکہ امام کھڑا ہوتا ہے، جب وہ رکوع کے لیے تکبیر کہتا ہے تو وہ حضرات قیام کے لیے اللہ اکبر کہتے ہیں اور انھیں معلوم نہیں رہتا کہ وہ امام کی مخالفت اور عدم اتباع کررہے ہیں لیکن جب امام رکوع سے سر اٹھاتا ہے
اور ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ کہتا ہے تو تب انھیں پتہ چلتا ہے، وہاں سے ہنسنے رلانے کے مقام کی روایت شروع ہوتی ہے، تم دیکھو گے کہ ان میں سے کوئی شخص نماز توڑ دیتا ہے اور نئے سرے سے نماز شروع کردیتا ہے، دوسرا اپنے زعم میں امام کو پانے اور اس کی پیروی کی کوشش کرتا ہے۔ وہ تشہد سے اٹھتا ہے، پھر کچھ دیر کے لیے کھڑا ہوتا ہے، پھر رکوع کرتا ہے، پھر رکوع سے اٹھتا ہے، پھر امام کو سجدہ میں یا اس کے بعد کی حالت میں پالیتا ہے۔
کبھی اس سے بھی زیادہ عجیب چیز واقع ہوتی ہے، وہ یہ کہ ایسا اتفاق ہوجاتا ہے کہ امام جب تشہد سے پہلے بھول کر تیسری رکعت کے لیے قیام کا ارادہ کرتا ہے تو کوئی مقتدی ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کر اسے لقمہ دیتا ہے تو جو منبر کے
|