ہے: جیسا کہ وہ ’’الرد علی الحبشی‘‘ (ص۱۰۔۱۳) میں واضح ہے، اور اس کے علاوہ میں بھی اس کی وضاحت ہے۔
اس حدیث اور قصے سے جو فوائد اخذ ہوتے ہیں، وہ یہ کہ کثرت عبادت کا اعتبار نہیں، اسے تو سنت کے مطابق اور بدعت سے دور ہونا چاہیے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے فرمان کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کیا ہے:
((اقْتِصَادٌ فِی سُنَّۃٍ، حَیْرٌ مِنْ اِجْتِھَادٍ فِی بِدْعَۃٍ)) [1]
’’سنت میں میانہ روی بدعت میں اجتہاد سے بہتر ہے۔‘‘
مزید یہ کہ: چھوٹی بدعت بڑی بدعت کی طرف پیام رساں ہے، کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہی حلقوں والے بعد میں خارجی بنے جنہیں خلیفہ راشد علی بن ابی طالب نے قتل کیا؟ کیا کوئی عبرت پکڑنے والا ہے؟!
سوم:… شرعی الفاظ میں اضافہ کرنا یا ان میں سے کچھ الفاظ بدل دینا
٭ابتدائیہ: اوراد و اذکار توقیفی ہیں
ہمارے شیخ نے ’’صحیح الترغیب و الترھیب‘‘ (۱/۳۸۸) میں حدیث رقم (۶۰۳) کے تحت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت، جس میں ہے: ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ…‘‘ انہوں نے کہا: ’’…جب میں ان الفاظ تک پہنچا ’’اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ‘‘، (تو اس کے بعد) میں نے کہا: ’’وَرَسُولِکَ‘‘! آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔ ’’وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ‘‘ ذکر کرتے وقت بیان کیا:
اس میں بڑی قوی دلیل ہے کہ اوراد واذکار توقیفی ہیں، یہ کہ ان میں کمی بیشی کی تبدیلی کرنا جائز نہیں، خواہ وہ کسی ایسے لفظ کے ساتھ تبدیلی ہو جس سے معنی کی خرابی نہ ہوتی ہو، کیونکہ لفظ ’’الرسول‘‘ لفظ ’’النبی‘‘ سے زیادہ عموم رکھتا ہے۔ اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں کیا، مزید یہ کہ براء رضی اللہ عنہ نے اسے سہواً کہا تھا عمداً نہیں کہا تھا! کہاں یہ اور کہاں وہ بدعتی حضرات جو ذکر میں کمی بیشی کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے؟!
کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟ اسی طرح وہ خطیب حضرات ہیں جو خطبۂ حاجت میں کمی بیشی کر کے تبدیلی کر دیتے ہیں اور اس میں تقدیم و تاخیر کر دیتے ہیں، تو ان میں سے جو اللہ اور دار آخرت کی امید رکھتا ہے وہ خبردار ہو جائے۔
۱: کھانے کے شروع میں لفظ ’’بسم اللّٰہ‘‘ پر اضافہ:
ہمارے شیخ البانی قدس اللّٰہ روحہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۱۵۲) کی حدیث رقم (۷۱) میں بیان کیا:
|