اس حدیث[1] میں ہے کہ کھانا شروع کرتے وقت صرف ’’بسم اللہ‘‘ کہنا چاہیے اس پر اضافہ نہیں، اس باب میں … اس حدیث کی طرح … وارد تمام صحیح احادیث میں ان الفاظ ’’بسم اللہ‘‘ کے علاوہ کوئی لفظ نہیں، میں نہیں جانتا کہ وہ اضافی الفاظ کسی حدیث میں وارد ہوئے ہوں، وہ فقہاء کے نزدیک بدعت کے معنی میں ایک بدعت ہے۔ رہے مقلد حضرات! تو ان کا جواب معروف ہے: ’’اس میں کیا برا ہے؟!‘‘
ہمارے شیخ … اسکنہ اللہ فصیح جنانہ … نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۶۷۸) کی حدیث رقم (۳۴۴) : ’’یَا غُلَامُ! اِذَا اَکَلْتَ:فَقُلْ: بِسْمِ اللّٰہِ…‘‘ ’’ لڑکے! جب تم کھانا کھاؤ تو کہو: بسم اللّٰہ…‘‘ کے تحت بیان کیا: اور اس کی مثل عائشہ کی مرفوع روایت ہے:
(( اِذَا اَکَلَ اَحَدُکُمْ طَعَامًا، فَلْیَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ…))
’’جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ ’’ بسم اللّٰہ‘‘ کہے…‘‘
ترمذی نے اسے روایت کیا اور اسے صحیح قرار دیا…
اور روایت عائشہ کو ابن القیم نے ’’زاد المعاد‘‘ میں صحیح قراردیا، اور حافظ نے فتح الباری (۹/۴۵۵) میں اسے قوی قرار دیا اور کہا:
’’بسم اللہ کی کیفیت بیان کرنے میں جو وارد ہے اس حوالے سے یہ سب سے زیادہ صریح ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:
رہا ’’الاذکار‘‘ میں کھانے کے آداب میں نووی کا قول: ’’تسمیہ کی کیفیت جاننا انتہائی اہم ہے، افضل یہ ہے کہ یوں کہا جائے: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، پس اگر اس نے کہا: بسم اللّٰہ، تو وہ اسے کفایت کرے گا اور سنت پر عمل ہو گیا۔‘‘ پس میں نہیں جانتا کہ انہوں نے افضلیت کے حوالے سے کسی خاص دلیل کا دعویٰ کیا ہو۔‘‘
میں[2] کہتا ہوں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوئی چیز افضل نہیں، ’’بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے‘‘ تو جب کھانے پر تسمیہ کے حوالے سے ’’بسم اللہ‘‘ سے زیادہ الفاظ ثابت نہیں، تو پھر اس سے زیادہ الفاظ جائز نہیں، چہ جائیکہ وہ زیادہ الفاظ اس سے افضل ٹھہریں! اس لیے کہ اس کے متعلق وہ قول اس حدیث کے خلاف ہے۔ جس کی
|