اختیار کیا، جیسا کہ کئی علماء نے اسے ان سے بیان کیا، ان میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ بھی ہیں، انہوں نے ’’ الفتح‘‘ (۱۳/۳۵۰) میں ان سے نقل کیا کہ انہوں نے علم الکلام سے سوائے حیرت کے اور کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا، اسی لیے انہوں نے فرمایا: ’’اب میں رجوع کرچکا ہوں اور مذہب سلف پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور انہوں نے اپنی موت کے وقت اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جیسا کہ اس سے پہلے ان کے والد نے کیا تھا:
’’میرے ساتھیو! علم کلام میں مصروف نہ ہونا، اگر مجھے پتہ ہوتا کہ وہ مجھے یہاں تک پہنچا دے گا جہاں تک میں پہنچا ہوں تو میں اس میں کبھی مشغول نہ ہوتا۔‘‘
قاری محترم! جب آپ عقل صحیح اور نقل صحیح کے منافی خطرناک علم کلام کے آثار میں سے کوئی اثر دیکھنا چاہیں تو الکوثری اور اس کی روش پر چلنے والوں کی کتب کا مطالعہ کریں۔ اسی طرح شاگرد السقاف میں آپ دیکھیں گے کہ آپ کی بصیرت و قناعت میں اضافہ ہوگا کہ وہ ان سے جو سیکھ رہے ہیں وہ صرف ﴿یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ﴾ (البقرۃ: ۱۰۲) (وہ سیکھتے ہیں جو انھیں نقصان پہنچاتا ہے اور وہ انھیں فائدہ نہیں پہنچاتا۔) کا مصداق ہے بلکہ جب انہوں نے اس کی پابندی کی تو وہ بعینہٖ کفر ہے، اللہ کے لیے جو صفت علو ہے جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہے، وہ کتاب و سنت اور سلف و ائمہ کے اقوال میں تواتر سے ثابت ہے وہ اس بارے میں اپنی خراب عقلوں کے ذریعے فیصلہ کرتے ہوئے اس صفت کے انکار پر متفق ہیں۔
۱۹: صفات کے بارے میں ان کا کہنا: ’’مذہب سلف زیادہ محفوظ ہے جبکہ مذہب خلف زیادہ مبنی برعلم اور زیادہ مضبوط ہے!‘‘ [1]
ہمارے شیخ نے مقدمہ ’’مختصر العلو‘‘ (ص۳۳۔۳۶) میں فرمایا:
تاویل پر اس (تاویل) کے دل دادہ حضرات کے لیے اس کے نقصانات پر سب سے زیادہ دلالت کرنے والا وہ جملہ ہے کہ جب بھی صفات اور اس پر ایمان کے حوالے سے اس کی تاویل پر بحث ہوتی ہے تو وہ درج ذیل قول، جو کہ زبان زد عام ہے، کا سہارا لیتے ہیں۔
’’مذہب سلف اسلم (زیادہ محفوظ) ہے، جبکہ مذہب خلف اعلم واحکم (زیادہ علمی اور زیادہ مضبوط) ہے۔‘‘
آج تعلیم یافتہ نوجوان جس نے اپنی شرعی ثقافت کو علم کلام کی کسی چیز سے آلودہ نہیں کیا، وہ بسا اوقات اس بات کی تصدیق نہیں کرتا کہ خلف میں سے کوئی اس طرح کا قول کہتا ہے! اس (قول) کی سنگینی اور اس کی قباحت کی وجہ سے وہ اس میں حق بجانب ہے، لیکن افسوس کی بات ہے وہ طالبانِ شریعت کے ہاں واقع اور متعارف ہے، میں تمہیں ایک مثال پیش کرتا ہوں جو وہ اپنے مشائخ کو سناتے ہیں:
|