Maktaba Wahhabi

544 - 756
(۱۰۶/۱۵۷)۔ ۱۵۸: انبیاء کے آثار کی زیارت جو کہ شام میں ہیں جیسے ابراہیم علیہ السلام کا غار اور وہ تین آثار جو ربوہ کے غربی طرف جبل قاسیون پر ہیں: ’’تفسیر الاخلاص‘‘ (۱۶۹)، ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۲۷/۱۵۸)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۶/۱۵۸)۔ انبیاء کی قبروں کا قصد کرنے اور ان کے آثار کے پاس نماز و دعا کے لیے ان کا تتبع کرنے کے مسئلے کی تفصیل ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’تخریج فضائل الشام و دمشق‘‘ (۴۹۔۵۶)، ط: المعارف، کی اکیسویں حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا اور اس پر منکر ہونے کا حکم لگایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت والی روایت کئی وجوہ سے مشہور ہے، اس میں سے اس میں کچھ بھی نہیں جو اس حدیث[1] میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غوطہ (دمشق) میں ہونے کی تمنا کی ہو تاکہ آپ انبیاء سے مدد طلب کرنے آتے اور اپنی قوم کے لیے بددعا کرتے! مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ وضع کیا گیا ہے، سنت سے آگاہی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ انبیاء کے آثار کا تتبع اور وہاں دعا کرنا آپ کا طریقہ نہیں تھا، بلکہ یہ تو اس سے ہے جس سے الفاروق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ودیگر نے منع فرمایا۔ اس بارے میں ان سے تین قصے وارد ہیں: ۱: ابن سوید نے کہا: میں نے مکہ سے مدینہ تک امیر المومنین عمر بن خطاب کے ساتھ سفر کیا، جب صبح ہوئی اور انھوں نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی، پھر انھوں نے لوگوں کو ایک طرف جاتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے فرمایا: یہ لوگ کدھر جارہے ہیں؟ بتایا گیا، امیر المومنین! اس مسجد کی طرف جارہے ہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی، وہ وہاں جاکر نماز پڑھیں گے، انھوں نے فرمایا: ’’تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے، وہ اپنے انبیاء کے آثار کا تتبع کرتے اور انھیں اپنا کنیسہ (گرجا) اور بَیع (یہود کے معابد) بنالیتے، جس شخص کی ان مساجد میں نماز کا وقت ہوجائے وہ نماز پڑھے اور جسے یہاں نماز کا وقت نہ ہو وہ اپنا سفر جاری رکھے اور وہ ان کا قصد نہ کرے۔‘‘
Flag Counter