سعید بن منصور نے اسے اپنی ’’السنن‘‘ میں اور ابن وضاح القرطبی نے ’’البدع والنہی عنھا‘‘ (ص۴۱،۴۲) میں شیخین (بخاری ومسلم) کی شرط پر صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا۔
۲: نافع سے روایت ہے کہ لوگ اس درخت (بیعت رضوان والے درخت) کے پاس آتے تھے، تو عمر نے اسے کاٹ دیا۔ ابن وضاح (ص۴۲۔۴۳) نے اسے روایت کیا، اس کی اسناد کے راوی ثقہ ہیں، اور ان سے ان کے شیخ عیسیٰ بن یونس نے روایت کیا جو کہ اہل طرطوس کے مفتی ہیں، انھوں نے کہا:
’’اس (درخت) کو کاٹ ڈالو، کیونکہ لوگ وہاں جاکر اس کے نیچے نماز پڑھتے تھے، انھیں فتنے کا اندیشہ تھا۔‘‘
۳: آپ رضی اللہ عنہ کے عہد میں جو دانیال کی قبر کو بے نام و نشان بنا دینے کا واقعہ ہوا جسے ابوخلدہ خالد بن دینار نے روایت کیا، انھوں نے جو کہا اس کا اختصار یہ ہے: ابوالعالیہ نے ہمیں بیان کیا، انھوں نے کہا:
’’جب ہم نے تستر کو فتح کیا، ہم نے ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی، اس پر ایک آدمی کی لاش تھی، میں نے کہا: تم نے اس آدمی کے ساتھ کیا کیا؟ انھوں نے کہا: ہم نے دن کے وقت متفرق طور پر تیرہ قبریں کھودیں، جب رات ہوئی تو ہم نے اسے دفن کردیا اور ساری قبریں برابر کردیں، تاکہ ہم اسے لوگوں پر مخفی کر دیں۔ وہ اسے کھود کر باہر نہ نکالیں، میں نے کہا: وہ اس سے کیا امید رکھتے تھے؟ انھوں نے کہا: جب ان پر بارش نہیں ہوتی تھی تو وہ اس چارپائی کو باہر لاتے تو ان پر بارش ہوجاتی تھی، میں نے کہا: تمہارے خیال میں وہ آدمی کون تھا؟ انھوں نے بتایا: اسے دانیال کہا جاتا تھا۔‘‘
ابن اسحاق نے اسے اپنی ’’مغازی‘‘ میں روایت کیا، اور ان کے علاوہ کسی اور نے دیگر وجوہ پر روایت کیا، اور بعض میں ہے کہ (اسے) عمر کے حکم پر دفن کیا گیا تھا۔
اسی موضوع میں سے ہے جو علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے وارد ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو ایک شگاف کی طرف آتے ہوئے دیکھا جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس تھا، وہ اس میں جاکر دعا کرتا، تو انھوں نے اسے منع کردیا اور فرمایا:
کیا میں تمھیں ایک حدیث نہ سناؤں جسے میں نے اپنے والد سے سنا، انھوں نے میرے دادا سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا:
’’میری قبر کو عید (بار بار آنے کی جگہ) بنانا نہ اپنے گھروں کو قبرستان، تم جہاں بھی ہو تمہارا سلام مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘
ضیاء المقدسی نے اسے ’’الأحادیث المختارۃ‘‘ میں روایت کیا ہے، ابویعلی نے اسے اپنی ’’مسند‘‘ میں روایت کیا، اس کی اسناد میں اہل بیت سے ایک آدمی نہ معلوم ہے، جبکہ اس کے باقی راوی ثقہ ہیں، وہ اپنے طرق
|