Maktaba Wahhabi

546 - 756
اور شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، میں نے اسے ’’تحذیر الساجد‘‘ (۹۸۔۹۹) میں نقل کیا ہے۔ تو ان آثار میں انبیاء کی قبروں کا قصد کرنے اور ان کے پاس نماز ودعا کے لیے ان کے آثار کا تتبع کرنے کی ممانعت ہے، اور یہ اس راستے کو بند کرنے اور ان کے بارے میں اس غلو کے اندیشے کے پیش نظر ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک تک پہنچاتا ہے، اسی لیے یہ سلف صالح رضی اللہ عنہم کا فعل نہیں تھا، بلکہ شیخ الاسلام نے ’’اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم‘‘ (ص۱۸۶۔۱۸۷) میں فرمایا: اس کا خلاصہ یہ ہے: ’’ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور باقی سارے سابقون اوّلون مہاجرین و انصار حج و عمرے کی غرض سے اور ویسے بھی مدینہ سے مکہ جاتے تھے، ان میں سے کسی ایک سے بھی منقول نہیں کہ انھوں نے ان جگہوں پر نماز پڑھنے کا قصد کیا ہو جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہو، اور معلوم ہے کہ اگر یہ ان کے نزدیک مستحب ہوتا تو وہ سب سے پہلے اس کی طرف سبقت کرتے، کیونکہ وہ آپ کی سنت کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، اور دوسروں کی نسبت اس کی سب سے زیادہ اتباع کرنے والے تھے، ان جگہوں پر نماز پڑھنے کا قصد انہیں مساجد (سجدہ گاہ) بنانے کا ذریعہ ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کا ذریعہ ہے اور الشارع نے سورج کے طلوع و غروب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرما کر اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرما کر اس کی جڑ کاٹ دی، تو جب ان جگہوں اور ان اوقات میں مشروع نماز سے منع کردیا گیا، تو یہ اس ذریعے کو بند کرنا تھا، پھر کسی ایسی جگہ نماز پڑھنا اور وہاں دعا کرنا کس طرح مستحب ہوسکتا ہے جہاں ان کے قیام کرنے اور دعا کرنے کے متعلق اتفاق ہے؟ اور اگر یہ جائز ہوتا تو حراء پہاڑ کا قصد کرنا اور وہاں نماز پڑھنا، نیز ثور پہاڑ کا قصد کرنا اور وہاں نماز پڑھنا مستحب ہوتا اور ان جگہوں کا قصد کرنا مستحب ہوتا جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انبیاء نے وہاں قیام فرمایا، جیسے وہ دو مقام جو دمشق میں جبل قاسیون کے طریق پر ہیں، وہ مقام جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ابراہیم اور عیسیٰ کے مقام ہیں، اور وہ مقام جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ قابیل کے خون کی یورش گاہ ہے، اور اس طرح کی دیگر جگہیں جو حجاز و شام میں ہیں۔ پھر اس کا نتیجہ اور انجام وہی ہے جو قبور کے مفاسد کا نتیجہ ہے، یہ کہا جاتا ہے یہ کسی نبی کی جگہ اور مقام ہے یا کسی نبی کی قبر یا کسی ولی کی قبر ہے اور یہ ایسی خبر کے ذریعے مشہور کیا جاتا ہے جس کے قائل کا پتہ نہیں ہوتا یا ایسے خواب کے ذریعے ہوتا ہے جس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی، پھر اسے اسے سجدہ گاہ بنالیا جاتا ہے، تو وہ ایک وثن (بت) کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجا کی جاتی ہے، یہ ایک شرک ہے جو افک (بہتان) پر مبنی ہے، اللہ سبحانہ اپنی کتاب میں شرک و کذب کو ایک ساتھ بیان کرتا ہے جس طرح صدق و اخلاص کو بیان کرتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں بیان فرمایا: ’’اللہ نے جھوٹی گواہی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے برابر قرار دیا ہے۔‘‘ آپ نے دو بار فرمایا، پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کا فرمان پڑھا:
Flag Counter