۲۱:… صوفیاء اور طلب علم میں ان کا طریقہ: فقط خلوت و تقویٰ:
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۰/۱۱۴) میں حدیث رقم (۴۶۰۰)[1]کے تحت فرمایا:
وہ حدیث میرے نزدیک موضوع ہے، اس پر وضع کے خط و خال واضح ہیں، اور میرا خیال ہے کہ اسے بعض صوفیاء نے وضع کیا ہے، جو گمان کرتے ہیں کہ طلب علم کا طریقہ اس طریقے سے علاوہ ہے جو اہل علم سے حاصل کرنا اور طلب کرنا ہے جنہوں نے اسے سلف سے حاصل کیا تھا، بلکہ وہ ان کے زعم کے مطابق فقط خلوت و تقوی کا طریق ہے! بسا اوقات ان کے بعض جاہلوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ﴾ (البقرۃ: ۲۸۲) ’’اللہ سے ڈر جاؤ اور اللہ تمہیں تعلیم دے گا۔‘‘ سے استدلال کیا ہے۔ اس مسکین کو معلوم نہیں کہ اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ علم سیکھنے کے اسباب [2] کے ذریعے علم حاصل کرنا ترک کر دیا جائے۔ امام قرطبی نے اپنی تفسیر (۳/۴۰۶) میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ جو اس کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ اسے تعلیم دے گا! یعنی: وہ اس کے دل میں نور پیدا کر دے گا جس کے ذریعے وہ اپنی طرف القاء کی گئی چیز کو سمجھے گا، کبھی اللہ اس کے دل میں شروع ہی سے ’’فرقان‘‘ پیدا فرما دیتا ہے! یعنی ایسا ملکہ جس کے ذریعے وہ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یٰٓا أَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا ﴾ [الانفال:۲۹]
’’ایمان دارو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والا) بنادے گا۔‘‘
۲۲:… صوفیاء کے مذہب میں گم نامی (چھپنا) ہے ظاہر ہونا نہیں:
ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۵۔ط۔ المعارف) کے مقدمے میں السقاف پر رد کرتے ہوئے فرمایا:
بڑی عجیب بات ہے کہ وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ صوفی ہے، جبکہ تصوف تو اس کے خلاف ہے! کیونکہ ان کا مذہب گم نامی (چھپنا) ہے نہ کہ ظاہر ہونا، حتی کہ ان کے قدماء [3] میں سے کسی نے کہا:
((کُنْ ذَنَبًا وَ لَا تَکُنْ رَأْسًا))
’’دم بن جا، سر نہ بن۔‘‘
|