نماز کی بدعات
اوّل:… امام کی بدعات
۱… امام کا ’’الوداع کرنے والے شخص کی نماز کی طرح نماز پڑھو‘‘ کہنے کو عادت بنانا بدعت ہے
ہمارے شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۶/۸۲۱) میں بیان کیا:
بعض اماموں نے یہ عادت بنائی ہے کہ وہ نماز کے لیے نمازیوں کی صفیں بناتے وقت انہیں حکم دیتے ہیں:
(( صَلُّوا صَلَاۃَ مُوَدِّعٍ)) اور وہ اسے کہنے میں درج ذیل روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ [1]
میں سمجھتا ہوں کہ کبھی کبھار اس طرح کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں، رہا اسے عادت بنا لینا تو وہ بدعت ہے۔
۲… مؤذن (اقامت کہنے والا) ابھی ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ پر ہی ہوتا ہے اور امام تکبیر تحریمہ کہنا شروع کر دیتا ہے[2]
یہ صحیح سنت کی مخالفت کی وجہ سے بدعت ہے! جیسا کہ اس پر یہ دو حدیثیں [3] دلالت کرتی ہیں، خاص طور پر ان دونوں میں سے اوّل، وہ دونوں فائدہ دیتی ہیں کہ اقامت صلوۃ کے بعد امام پر واجب ہے کہ وہ اس کا اہتمام کرے، اور وہ ہے لوگوں کی صفوں کو درست کرنے اور برابر ہو کر کھڑے ہونے کا امر، وہ اس کے متعلق انہیں یاد دہانی کرائے، کیونکہ ان کے متعلق اس سے باز پرس ہوگی: ’’تم سب نگہبان ہو، اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہو۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/ ۷۴) میں اسے بیان کیا، ’’الضعیفۃ‘‘ (۹/۲۲۴) میں حدیث رقم (۴۲۱۰) کے تحت اضافہ نقل کیا: اس کی نص یہ ہے: ’’جب بلال قدقامت الصلوۃ کہتے تھے، آپ تکبیر (اللّٰہ اکبر) کہتے تھے۔‘‘ وہ روایت ضعیف ہے۔
|