یہ جو نفی کرتے ہیں ان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے کہ وہ اپنی اس نفی سے اپنے رب کی پاکی مراد لیتے ہیں کہ وہ مخلوقات سے اوپر ہو، انہوں نے اسے اس (مخلوق) کے اندر محصور کر دیا، جیسا کہ بشر مریسی سے روایت کیا گیا کہ جب اس نے کہا: وہ ہر چیز میں ہے! اس سے پوچھا گیا: تمہاری اس ٹوپی میں بھی؟ اس نے کہا: ہاں، اور اس سے پوچھا گیا: گدھے کے پیٹ میں بھی؟ اس نے کہا: ہاں!
اور یہ قول ہر اس شخص کو لازم آتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے، اور رب العالمین الحکیم الحلیم کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے یہ سب سے زیادہ باطل کلام ہے، اسی لیے بعض سلف نے کہا:
ہم یہود و نصاریٰ کا کلام تو بیان کرتے ہیں، لیکن ہم جہمیہ کا کلام بیان نہیں کرسکتے!
۷: اللہ تعالیٰ کی طرف ’جگہ‘ کی نسبت
ذہبی نے حرب الکرمی سے اس کا قول نقل کیا ہے:
’’جہمیہ اللہ کے دشمن ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے، اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا نہ آخرت میں اس کا دیدار ہوگا اور نہ اللہ کے لیے کوئی معلوم جگہ ہے، وہ عرش پر ہے نہ کرسی پر، یہ کافر ہیں لہٰذا ان سے اجتناب کرو۔‘‘
’’مختصر العلو‘‘ (ص۲۱۳) ترجمہ رقم:(۸۳)
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۲۱۳) میں حرب الکرمی کے کلام: ’’اللہ کے لیے کوئی جگہ ومکاں معروف نہیں۔‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی طرف اس جگہ کی نسبت کرنا جو کتاب و سنت میں منقول ہے نہ اقوال صحابہ میں اور نہ ہی سلف امت کے اقوال میں، ان کے نہج کے لائق یہی ہے کہ ہم اس اندیشے کے پیش نظر کہ کہیں ایسا خیال آجائے جو عزوجل کی شان کے لائق نہیں، ہم اسے اس کی طرف منسوب نہیں کرتے، اس لیے کہ وہ کلام الکرمی میں، جو کہ اس کے بعد ہے، وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔‘‘
۸: اللہ نے سب سے پہلے نور محمدی پیدا فرمایا[1]
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۲۵۷۔۲۵۸) میں حدیث (۱۳۳) کے تحت فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا اور اسے حکم فرمایا کہ وہ ہونے والی ہر چیز لکھے۔‘‘
اس حدیث میں اس چیز کے ردّ کی طرف اشارہ ہے جسے لوگ نقل کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں راسخ عقیدہ بن گیا، اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی پیدا فرمایا۔
|