(میں ایسے ہی کہتا) اگر میں نے اس کے بہت سے جھوٹ نہ پکڑے ہوتے جن کی تاویل ممکن نہیں، جیسا کہ کئی بار بیان ہوا۔
شیعی نے جو بھی جھوٹ افتراء کیے اس نے ان پر اکتفا نہیں کیا، حتی کہ اس نے (بڑی ڈھٹائی اور قلت حیا کے پیش نظر) اس پر اپنے قول کی بنیاد رکھی۔
’’شیخین اور ان جیسے دوسرے محدثین نے اسے روایت نہیں کیا، کیونکہ انہوں نے اسے خلافت میں ان کی رائے سے متصادم دیکھا، اور ان کے صحیح نصوص سے اعراض کرنے کا یہی وہ سبب ہے، وہ ڈر گئے کہ یہ شیعہ کے لیے ہتھیار ثابت نہ ہو، پس انہوں نے جانتے بوجھتے اسے چھپا لیا، بے شک اہل السنہ کے بہت سے شیوخ (اللہ ان سے درگزر فرمائے) کا یہی وتیرہ تھا، اس سلسلے میں جو بھی تھا وہ اسے چھپاتے تھے!!‘‘
اس طرح اس نے کہا (اللہ اس کے استحقاق کے مطابق اس سے معاملہ کرے) حالانکہ فی الواقع یہ اس کا اور اس کے شیعہ بھائیوں کا وصف ہے، وہ ہیں جو صحیح نصوص کو رد کرتے ہیں، اور ضعیف و موضوع روایات سے دلیل لیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ قارئین کو یہ وہم ڈالتے ہیں کہ وہ اہل السنہ کے نزدیک صحیح ہیں، جبکہ وہ ان کے نزدیک ضعیف یا موضوع ہوتی ہیں۔
کیا میں اس شیعی کے کرتوت بتاؤں جو ہم نے اس کی عیب کشائی کی اور اس کی کتاب کی تخریج کے دوران میں اس کی کمزوریوں سے پردہ اٹھایا کہ اس کتاب میں کوئی نادر حدیث ہی صحیح ہوگی؟ اگر کوئی مل جائے تو اس میں ان کے زعم کے مطابق علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر مطلق دلالت کرنے والی کوئی دلیل اور نص نہیں ان کے متعلق یہ جو کہتے ہیں، اور جو اکاذیب واباطیل ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اللہ نے ان کو اس سے لاتعلق ٹھہرایا ہے۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دفاع، اور اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے متعلق رافضہ کی تاویل:
﴿اِذْھُمَا فِیْ الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہِ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ (التوبۃ: ۴۰)
’’جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے، غم نہ کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
پھر ہمارے شیخ نے اسی مصدر (۱۰/۶۲۲۔۶۲۳) میں بیان کیا۔
پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت [1] میں ایک جملہ ہے جسے رافضی نے عمداً حذف کیا ہے، کیونکہ وہ اس کے ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے فضائل کے انکار کے خلاف ہے، اور وہ (جملہ) ان کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے کے متعلق ہے، اور روایت یہ ہے:
|