نے کتنی زیادہ احادیث جمع کیں اور کتنی کتابیں تالیف کیں!
جو شخص علم میں اس راہ و روش کو اختیار کرتا ہے اور اس طریق پر چلتا ہے تو اس کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں، اسے عام کے بجائے جاہل کہنا زیادہ بہتر ہے۔
ضعیف احادیث روایت کرنے اور اس کا بیان چھپانے میں تساہل برتنے کی سزا اور انجام
اور حقیقت ہے کہ علماء کا ضعیف احادیث روایت کرنے میں تساہل اور ان کا ضعف بیان کرنے سے خاموشی اختیار کرلینا ان قوی اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب تھا جس نے لوگوں کو دین میں بدعت سازی پر آمادہ کیا، بے شک بہت سی عبادات، جن پر ان میں سے بہت سے لوگ عمل پیرا ہیں اور جو عبادات بجا لارہے ہیں ان کی بنیاد ضعیف بلکہ موضوع روایات پر ہے، جیسا کہ عاشوراء کے دن خرچ کرنے میں توسع، ضعیف الترغیب (حدیث ۶۱۷، ۶۱۸) اور پندرہ شعبان کی شب کا قیام کرنا اور اس دن کا روزہ رکھنا (الحدیث ۶۲۴)، اور وہ بہت زیادہ ہیں، آپ انہیں میری کتاب ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرھا السیء فی الأمۃ‘‘ میں پائیں گے اور اس (ابتداع) پر قاعدہ مزعومہ کہ ’’فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے جواز‘‘ نے ان کی مدد کی ہے، جبکہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ محقق علماء نے دو قیود کے ساتھ اسے مقید کیا ہے:
(ا) قید حدیثی…: اس کی تفصیل گزرچکی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو بھی ضعیف حدیث پر عمل کرنا چاہتا ہے، اسے اس کے ضعف کے متعلق علم ہونا چاہیے، کیونکہ جب شدید ضعف ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں، ضعیف حدیث پر عمل کرنے اور اسے لوگوں کے درمیان پھیلانے کے متعلق یہ لازمی شرط ہے، کاش کہ اہل علم اسے بیان کرنے کی ذمہ داری نبھائیں۔
(ب) قید فقہی…: رہی دوسری قید تو وہ فقہی ہے، یہ اس کی تفصیل کا موقع ہے لہٰذا میں عرض کرتا ہوں: حافظ ابن حجر نے اس دوسری شرط کے بارے میں غیر واضح بات فرمائی ہے:
’’یہ کہ ضعیف حدیث اصل عام کے تحت مندرج ہو…‘‘
مگر یہ قید حقیقت میں کافی نہیں، کیونکہ زیادہ تر بدعات اصل عام کے تحت ہی مندرج ہیں، اور اس کے باوجود وہ غیر مشروع ہیں، یہ وہی ہیں جنہیں امام شاطبی بدعات اضافیہ کا نام دیتے ہیں، اور یہ بات واضح ہے کہ ضعیف حدیث اس کی شرعیت کے اثبات کا بیڑہ نہیں اٹھاتی، لہٰذا اس کی ایسی چیز کے ساتھ تقیید ضروری ہے جو اس سے زیادہ دقیق ہو، گویا کہ یوں کہا جائے، یہ کہ وہ ضعیف حدیث اس عمل کے بارے میں ہو جس کی شرعیت اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے ثابت ہوتی ہو جو شرعی دلیل ہونے کے لیے درست ہو، اس حالت میں ضعیف حدیث سے شریعت سازی نہیں ہوگی، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس عمل میں، جس کی دل چاہت رکھتا ہے، مزید ترغیب ہے، لہٰذا
|