پھر انھوں نے اس باب میں وارد احادیث بیان کیں، اور قرطبی نے اپنی ’’تفسیر‘‘ (۱۰/۳۷۹۔ ۳۸۰) میں بیان کیا جس کا خلاصہ یہ ہے:
’’قبروں پر مساجد بنانا، ان میں نماز پڑھنا اور ان پر عمارت بنانا اور اس کے علاوہ وہ چیز جس کی ممانعت کو سنت متضمن ہے وہ ممنوع ہے۔‘‘
پھر انھوں نے عائشہ کی روایت ذکر کی، پھر فرمایا:
’’ہمارے مالکی علماء نے بیان کیا: یہ مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ انبیاء اور علماء کی قبروں کو مساجد بنالیں۔‘‘
اور شیخ الاسلام نے بھی سورۃ الاخلاص کی تفسیر (ص۱۶۸) میں فرمایا:
’’علماء نے فرمایا: قبروں پر مساجد بنانا حرام ہے، قبر پر بنائی گئی ہر مسجد کو گرانا واجب ہے اور اگر میّت کو مسجد میں دفن کیا گیا ہو اور اس پر عرصہ دراز بیت گیا ہو تو قبر کو برابر کردیا جائے گا حتیٰ کہ اس کی صورت ظاہر نہ ہو، شرک تب ہوتا ہے جب اس کی صورت ظاہر ہو، اس لیے کہ مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں مشرکوں کا قبرستان تھا اور وہاں کھجوروں کے درخت اور کچھ ویرانہ بھی تھا، آپ نے قبروں کے متعلق فرمایا تو انھیں اکھاڑ دیا گیا، کھجوروں کے درخت کاٹ دیے گئے اور ویرانے کوبرابر کردیا گیا، اب وہ قبرستان نہ رہا بلکہ مسجد بن گئی، جب قبروں کو مساجد بنانا اور ان پر مساجد بنانا حرام ہوا، تو صحابہ اور تابعین کے دور میں ایسی کوئی چیز نہ تھی اور کسی قبر پر کوئی مسجد بالکل معروف نہ تھی۔‘‘
کبھی یہ وہم ڈالا جاتا ہے کہ جس چیز سے روکا گیا ہے وہ صرف دفن کرنے کے بعد قبروں پر مساجد بنانا ہے، یہ نہیں کہ اگر مسجد پہلے بنائی گئی ہو اور قبر اس کی کسی ایک جانب بنائی جائے تاکہ اس میں مسجد وقف کرنے والے کو یا اس کے علاوہ کسی اور کو دفن کیا جائے، شوکانی نے (۴/۱۱۴) فرمایا:
’’العراقی نے فرمایا: ظاہر ہے کہ اس میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ جب مسجد بنائی گئی ہو تو یہ قصد کیا گیا کہ کسی شخص کو اس کے کسی حصے میں دفن کیا جائے گا تو وہ بھی لعنت میں شامل ہے، بلکہ مسجد میں دفن کرنا حرام ہے، خواہ وہ شرط قائم کریں کہ اس میں دفن کیا جائے گا۔ یہ شرط صحیح نہیں، کیونکہ وہ مسجد وقف کرنے کے تقاضے کے خلاف ہے، واللہ اعلم۔‘‘
قبر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی مسجد میں داخل کرنے کے مسئلے کی تفصیل[1]
ہمارے شیخ نے ’’الثمر المستطاب‘‘ (۴۸۳- ۴۸۵) میں بیان کیا:
|