Maktaba Wahhabi

589 - 756
’’ہم (جائز) نہیں سمجھتے کہ اس (قبر) سے جو (مٹی) نکلے اس پر اضافہ کیا جائے اور ہم اسے پختہ بنانے یا اس کی لپائی کرنے اور اس کے پاس مسجد کو بنانے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔‘‘ ان کے نزدیک مطلق طور پر لفظ مکروہ تحریم کے لیے ہوتا ہے، رہے شافعی تو انھوں نے ’’الأم‘‘ (۱/۲۴۶) میں بیان کیا: ’’میں قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ سمجھتا ہوں، انھوں نے فرمایا: میں اسے سنت و آثار کی وجہ سے مکروہ جانتا ہوں، اور انھوں نے اسے مکروہ جانا۔ واللّٰہ اعلم۔ اگر کسی مسلمان کی تعظیم کی جائے۔ یعنی: اس کی قبر کو مسجد بنالیا جائے اور اس کے بعد اس بارے میں جو فتنہ اور گمراہی آئے گی اس سے بچا نہیں سکے گا۔‘‘ اور ’’المجموع‘‘ (۵/۳۱۶) میں ہے: ’’شافعی اور اصحاب کی عبارات و اقوال قبر پر مسجد بنانے کی کراہت پر متفق ہیں، خواہ میت نیکی یا کسی اور حوالے سے مشہور ہو اور یہ احادیث کے عموم کے حوالے سے ہے۔‘‘ میں نے کہا: لیکن ان کے نزدیک کراہت تنزیہی ہے، اس پر دلیل یہ ہے کہ: انھوں نے کہا: قبر پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ نووی رحمہ اللہ نے (۳/۱۵۸) فرمایا: ’’انھوں نے اسی طرح کہا: ’’مکروہ ہے‘‘ اور اگر ابومرثد اور دیگر کی روایت کے لحاظ سے حرام کہا جائے تو یہ بھی کوئی بعید نہیں۔‘‘ اگر نووی رحمہ اللہ نے اپنے اصحاب کے عمارت بنانے کی کراہت کے متعلق قول جیسی بات کی ہے تو وہ زیادہ حق دار اور زیادہ مناسب ہے، کیونکہ قبر کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کی نسبت عمارت سے ممانعت زیادہ سخت اور زیادہ خوفناک ہے، جیسا کہ اس موضوع کے بارے میں وارد احادیث سے آگاہی رکھنے والے پر مخفی نہیں، اسی لیے شیخ الاسلام نے ’’الاقتضاء‘‘ (ص۱۵۸) میں فرمایا: ’’جہاں تک قبروں پر مساجد بنانے کا تعلق ہے تو علماء کی بہت بڑی جماعت نے احادیث کی متابعت کرتے ہوئے اس کی ممانعت کی وضاحت کی ہے، ہمارے اصحاب اور ان کے علاوہ مالک اور شافعی اور ان کے علاوہ دیگر نے اس کی حرمت کی صراحت کی ہے اور علماء میں سے کسی نے اس بارے میں مطلق طور پر لفظ کراہت بیان کیا ہے (گویا کہ وہ شافعی کی طرف اشارہ کر رہے ہوں)، پس میں نہیں جانتا کہ اس سے ان کی مراد مکروہ تنزیہی ہے یا مکروہ تحریمی؟ اور اس کی قطعی حرمت کے بارے میں کوئی شک نہیں۔‘‘
Flag Counter