Maktaba Wahhabi

588 - 756
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ﴾ (ق:۳۷) ’’بے شک اس میں ایسے شخص کے لیے نصیحت ہے جس کے پاس دل ہو یا اس نے پوری توجہ سے بات سنی۔‘‘ اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الثمر المستطاب‘‘ (۱/۴۷۹۔۴۸۳) ’’احکام المساجد‘‘ میں بیان فرمایا: چہارم: یہ کہ اس (مسجد) کو قبر پر نہ بنائے کیونکہ وہ حرام ہے، اس حوالے سے جسے عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض میں جس سے آپ صحت یاب نہ ہوسکے، فرمایا: ’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’اگر یہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی جگہ بنائی جاتی، اس بات کا اندیشہ تھا کہ اسے مسجد/ سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے۔‘‘ [1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا لَعَنَ اللّٰہُ قَوْمًا اتَّخَذُوا قُبُوْرَ أَنْبِیَاۂمْ مَسَاجِدَ۔))[2] ’’اللہ! میری قبر کو بت نہ بنادینا، اللہ ایسے لوگوں پر لعنت کرے جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘ پہلی حدیث عائشہ سے ہے جبکہ دوسری روایت ابوہریرہ سے ہے، جبکہ وہ دونوں صحیح ہیں۔ ان احادیث میں قبروں پر مساجد بنانے کی حرمت کا بیان ہے، قبروں پر مساجد کے ’’اتخاذ‘‘ سے ’’بنانے‘‘ کا معنی لیا گیا ہے جیسا کہ اس کا بیان گزرا ہے، جبکہ بعض روایات میں اس لفظ کی صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے: (( بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِدً ا وَ صَوَّرُوْا فِیْہِ تِلْکَ الصُّوَرَ، أُولٰئِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) ’’انھوں نے اس کی قبر پر مسجد بنالی اور اس میں وہ مورتیاں بنالیں، وہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘ اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔ بہت سے علماء کا موقف ہے کہ یہ حرام ہے، امام محمد نے اپنی کتاب ’’الآثار‘‘ (ص۴۵) میں بیان کیا:
Flag Counter