ہشتم:… قبروں کی زیارت کی بدعات
قبروں کی بدعتی زیارت:
آلوسی رحمہ اللہ نے ’’الآیات البینات‘‘ (ص۷۷) میں بیان کیا:
’’…بے شک قبروں کی زیارت ہمارے ائمہ حنفیہ کے نزدیک بھی امر مشروع ہے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الآیات البینات‘‘ (ص۷۷) پر اپنی تعلیق میں فرمایا:
’’اور اسی طرح باقی ائمہ ہیں، ان میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ان کے شاگرد ابن قیم الجوزیہ اور امام دعوۃ التوحید محمد بن عبد الوہاب وغیرہم، پس جس نے ان کے انکار کو زیارت قبور کی طرف منسوب کیا ہے اس نے زیادتی اور ظلم کیا، انھوں نے اس زیارت کا انکار کیا ہے جس کے ساتھ شریعت کے بعض مخالف امور بھی ہوں، جیسے قبروں سے مدد طلب کرنا، ان کے لیے نذر ماننا، ان کی قسم اٹھانا اور اس طرح کے امور، جیسے قبروں سے مدد طلب کرنا، ان کے لیے نذر ماننا، ان کی قسم اٹھانا اور اس طرح کے امور، جیسے ان کے لیے رخت سفر باندھنا، اور وہ اس زیارت کو بدعتی زیارت کا نام دیتے ہیں، اور آپ زیارت شرعیہ پر تفصیل اور اس کے متعلق وارد احادیث ’’أحکام الجنائز وبدعھا‘‘[1] میں پائیں گے۔‘‘
۱۳۳: موت کے بعد تیسرے دن قبروں کی زیارت کرنا اور وہ اسے ’’الفرق‘‘ کا نام دیتے ہیں، ہفتے کے پہلے دن (قبروں) کی زیارت کرنا، پھر پندرھویں دن، پھر چالیسویں دن اور وہ اسے ’’الطلعات‘‘ کا نام دیتے ہیں ، ان میں سے کوئی آخری دو پر ہی اکتفا کرتے ہیں:
’’نور البیان فی الکشف عن بدع آخر الزمان‘‘ (ص۵۳۔۵۴)، ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۲۴/۱۳۳)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۵/۱۳۳)۔
۱۳۴: ہر جمعہ والدین کی قبر کی زیارت کرنا:
(اس میں وارد حدیث موضوع ہے، جیسا کہ مسئلہ ۱۱۸ ص ۲۳۷ سے پہلے بیان ہوا۔[2] ’’أحکام الجنائز‘‘ (۳۲۴/۱۳۴)، ’’تلخیص الجنائز‘‘ (۱۰۵/۱۳۴)۔
۱۳۵: ان کا یہ کہنا: جب جمعہ کی رات میّت کی زیارت کے لیے نہ نکلا جائے تو وہ (میّت) مردوں کے درمیان شکستہ دل رہتی ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ جب وہ شہر کی فصیل سے نکلتے ہیں تو وہ (میّت) انھیں دیکھتی ہے:
|