جنہیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پسند فرمایا، اور وہ آپ کو سکھائیں، اور آپ نے ان کی فضیلت وعمدگی کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی! ہم انہیں اس حوالے سے قرآنی دعاؤں کے مطابق پاتے ہیں کہ وہ بھی اس بدعتی وسیلے سے خالی ہیں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پھر انہوں نے سنت سے مختلف دعاؤں کا ذکر کرنے کے بعد (ص۵۰) فرمایا:
…… ہم ان میں ایک بھی دعا نہیں پاتے جس میں اس بدعتی وسیلے میں سے کوئی چیز ہو جسے مخالفین عمل میں لاتے ہیں۔
مخالفین کا شرعی وسیلوں سے بے اعتنائی برت کر بدعتی اور غیر شرعی وسیلوں کو اختیار کرنا
ہمارے شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’التوسل‘‘ (ص۵۰۔۵۳) میں بیان کیا:
حقیقی طور پر یہ عجیب ہے کہ تم ان لوگوں کو دیکھو گے وہ سابقہ مشروع توسل کی انواع سے اعراض برتتے ہیں۔ [1] پس وہ اپنی دعاؤں سے یا ان کی لوگوں کو تعلیم دینے میں ان (مشروع توسل) میں سے کوئی چیز عمل میں نہیں لاتے، حالانکہ ان کا کتاب و سنت میں ثبوت موجود ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
تم انہیں دیکھو گے کہ وہ ان کے بجائے ان دعاؤں کا قصد کرتے ہیں جن کو انہوں نے اختراع کیا ہے، اور ان وسیلوں کو اختیار کرتے ہیں جو انہوں نے خود ایجاد کیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں مشروع قرار دیا نہ اس کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عمل میں لائے اور نہ ہی وہ اس امت کے پہلے تین افضل زمانوں کے اصحاب سے منقول ہوئے، اس کے متعلق کم از کم یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا مندرجہ ذیل فرمان ان کے متعلق زیادہ لائق ہے:
﴿اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ﴾ (البقرہ:۶۲)
’’کیا تم ایک بہتر چیز کے بدلے ادنی چیز لینا چاہتے ہو؟‘‘
ہو سکتا ہے کہ یہ عملی شواہد میں سے ایک ہو جو جلیل القدر تابعی حسان بن عطیہ المحاربی رحمہ اللہ کے سچ کی تائید کرتا ہے، جیسا کہ انہوں نے فرمایا:
(( مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَۃً فِیْ دِیْنِھِمْ اِلَّا نَزَعَ اللّٰہُ مِنْ سُنَّتِھِمْ مِثْلَھَا ثُمَّ لَا یُعِیْدُھَا اِلَیْھِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) [2]
’’جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اللہ اس کے مثل سنت سے (کوئی سنت)
|