اس سے تعارض کرتا ہے، بلکہ صحابہ کی جماعت اور ان کے علاوہ اکثر کا وہی موقف ہے جو کہ حدیث بتاتی ہے، اور وہ ہے سحری کا اس وقت تک جائز ہونا کہ فجر واضح ہو جائے اور سفیدی راستوں میں پھیل جائے،
’’الفتح‘‘ (۴/۱۰۹۔۱۱۰) دیکھیں۔
اس حدیث کی روشنی میں فجر سے تقریباً پندرہ منٹ پہلے کھانا پینا بند کر دینے کی بدعت کا ابطال ہوتا ہے! کیونکہ وہ اس اندیشے کے پیش نظر اس طرح کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اذان فجر ہو جائے اور وہ ابھی سحری کھا رہے ہوں، اگر وہ اس رخصت کو جان لیں تو وہ اس بدعت میں مبتلا نہ ہوں! لہٰذا اس پر غور کریں۔
۲: عاشوراء کے دن خرچ کرنے اور سرمہ لگانے کی بدعت[1]
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب والترھیب‘‘ (۱/۵۹۳) میں حدیث رقم (۱۰۱۷) کے تحت فرمایا:
لغت میں مشہور ہے کہ ’’عاشوراء‘‘ اور ’’تاسوعاء‘‘ مد کے ساتھ پڑھے جائیں گے، اور انہیں مد کے بغیر پڑھنا بھی منقول ہے، اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اب عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنا سنت ہے واجب نہیں، رہا اس دن خرچ کرنا اورسرمہ لگانا تو وہ بدعات میں سے ہے…
۳: پندرہ شعبان کے روزے اور اس کی رات کے قیام کی پابندی کرنا
’’الاعتصام‘‘ (۱/۳۴)، ’’الرد علی التعقیب الحثیث‘‘ (ص۵۰)، ’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۴۳،۴۴) ’’صحیح الترغیب و الترھیب‘‘ (۱/۵۴)۔
|