Maktaba Wahhabi

436 - 756
دمشق وغیرہ میں بعض لوگوں نے فجر کی نماز کے بعد یک زبان ہوکر بلند آواز سے اس حدیث[1] میں مذکور تسبیح پڑھنے کو معمول بنالیا ہے، اور میں اس کی سنت مطہرہ میں کوئی اصل جانتا ہوں نہ ہی ان کے لیے اس حدیث کا سہارا لینا درست ہے، کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ مطلق ہے، نماز فجر کے ساتھ مقید ہے نہ جماعت کے ساتھ، اور جس چیز کو الشارع الحکیم نے مطلق رکھا ہو اسے مقید کرنا جائز نہیں جس طرح اس چیز کو مطلق کرنا جائز نہیں جسے اس نے مقید کیا ہو، یہ سب شرع ہے جو العلیم الحکیم کے ساتھ خاص ہے۔ پس جو شخص اس حدیث پر عمل کرنا چاہے تو وہ دن یا رات کے کسی بھی وقت اس پر عمل کرے، نماز سے پہلے یا اس کے بعد اور یہ محض اتباع ہے اور اس میں اخلاص ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں عطا فرمائے۔ ۲… نماز کے بعد امام کا دعا کرنا اور نمازیوں کا اس پر آمین آمین کہنا جیسا کہ آج بہت سے اسلامی ممالک میں اس کا معمول ہے۔ وہ بدعت ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، امام شاطبی نے ’’الاعتصام‘‘ میں اس کی مفید شرح کی ہے، میں اس کی کوئی مثال نہیں جانتا، جو شرح و تفصیل چاہتا ہے وہ اس کی طرف رجوع کرے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اسے ’’الضعیفۃ‘‘ (۶/۶۰) میں بیان کیا ہے۔ ۳… ’’ومنک السلام‘‘ پر ’’وإلیک یرجع السلام فحینا ربنا بالسلام‘‘ کا اضافہ ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفر اللّٰہ پڑھ کر یہ دعا کرتے تھے: ’’اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔‘‘ [2] ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’المشکاۃ‘‘ (۱/۳۰۳) حدیث رقم (۹۶۱)[3]کے تحت، جو کہ الجزری سے ہے بیان کیا جو کہ درج ذیل ہے: رہا وہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ((وَمِنْکَ السَّلَامُ)) کے بعد ’’وإلیک یرجع السلام، فحینا ربنا بالسلام، وأدخلنا دارالسلام‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے، تو اس کی کوئی اصل نہیں، بلکہ کسی قصہ گو کی پیداوار ہے۔
Flag Counter