Maktaba Wahhabi

449 - 756
ہے، یہ اس پر سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ روایت موضوع ہے، خاص طور پر جبکہ اس کی اسناد میں عمر بن ہارون بن یزید ثقفی بلخی مذکور ہے، وہ متروک اور متہم راویوں میں سے ہے، اگرچہ وہ حافظ ہے، ہوسکتا ہے کہ ابن مہدی نے جو اس کی تعریف کی ہے وہ اس کے حفظ کے حوالے سے ہو، اور اسی طرح اس کا شاگرد عامر بن خداش، ہوسکتا ہے کہ یہ اس کی منکر روایات میں سے ہو جنھیں وہ روایت کرتا رہا، تعجب تو کسی امر میں تجربے پر اعتماد کرنے کے حوالے سے حاکم، بیہقی، واحدی اور ان کے بعد والے علماء پر ہے، وہ سب جانتے ہیں کہ وہ سنت مطہرہ کے خلاف اس کی منع کردہ چیزوں میں وقوع کو شامل ہے۔‘‘ ۱۱۔ مغرب کے فرض کے بعد چھ رکعتوں والی نماز کو ’’صلاۃ الاوابین‘‘ کا نام دینا: ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر صحیح مسلم‘‘ رقم(۳۶۸) کے حاشیے میں فرمایا: اس حدیث[1] میں جو نماز چاشت ہے شرعاً اسی کا نام ’’صلاۃ الأوابین‘‘ رکھا گیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق مغرب کی نماز کے بعد والی نماز کو یہ نام دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صحیح الترغیب‘‘ (۱/۴۲۳) رقم ۶۷۶(۱۳) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز چاشت کے بارے میں فرمان: ’’اور وہ ’’صلوٰۃ الاوابین‘‘ ہے، کے حوالے سے بیان کیا: میں نے کہا: اس حدیث میں ان لوگوں پر ردّ ہے جو ان چھ رکعتوں کو، جنھیں وہ مغرب کی نماز کے بعد پڑھتے ہیں، ’’صلاۃ الاوابین‘‘ کا نام دیتے ہیں، اسے یہ نام دینے کی کوئی اصل نہیں ا ور وہ نماز ثابت نہیں۔[2] اور انہوں نے ’’السلسلۃ الضعیفۃ‘‘ (۱/۶۸۰) میں حدیث رقم (۴۶۷)[3] کے تحت بیان کیا: ’’جان لیجیے کہ مغرب اور عشاء کے درمیان معین رکعتیں پڑھنے پر ترغیب کے متعلق جتنی روایات آئی ہیں وہ صحیح نہیں، وہ ایک دوسری سے بڑھ کر ضعیف ہیں، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے جو نماز صحیح ثابت ہے وہ تعداد کی تعیین کے بغیر ہے، رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو بھی ضعیف روایت مروی ہو اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔‘‘
Flag Counter