Maktaba Wahhabi

79 - 756
مستحسن قرار دیتے ہیں، وہ عموماً عام دلیل سے خالی نہیں ہوتی، جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں، اس بات کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، اس کے لیے ’’الاعتصام‘‘ اور اصول البدع کے متعلق دیگر کتب کی طرف رجوع کریں۔ ۲۶: بدعات کی تفصیلات کے انکار میں یہ شرط نہیں لگائی جائے گی کہ وہ (انکار) ہمارے ہاں سلف میں سے کسی ایک سے صحیح اسناد سے منقول ہو ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الرد علی التعقیب الحثیث‘‘ میں (ص ۵۴ پر) شیخ حبشی پر ردّ کرتے ہوئے اور تسبیح (جس پر گنتی کرکے ورد و ذکر کیا جاتا ہے۔ مترجم) کے بدعت ہونے میں اس سے سوال وجواب کے دوران میں فرمایا: ’’…کیا اہل علم و عقل کے ہاں بدعات کی تفصیلات کے انکار میں یہ شرط لگائی جائے گی کہ وہ ہمارے ہاں سلف میں سے کسی ایک سے صحیح اسناد کے ساتھ منقول ہو جس میں ایک ایک بدعت کا انکار کیا گیا ہو؟ جسے علم کی ہوا بھی لگی ہو وہ ایسی بات نہیں کرسکتا۔‘‘ ۲۷: عبادات میں بدعت، بدعت سیۂ ہے ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’صلاۃ التراویح‘‘ میں (ص۲۵ پر) ’’مجالس الأبرار‘‘ کے مؤلف شیخ ملا احمد حنفی کا قول نقل کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: ’’…جس نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے قول یا فعل کے حوالے سے کوئی نیا کام جاری کیا تو اس نے دین سازی کی جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا، تو معلوم ہوا کہ خالص بدنی عبادات میں ہر بدعت، بدعت سیۂ ہی ہے۔‘‘ ۲۸: اصول: عبادات کی ایسے اوقات اور ایسی جگہوں سے تخصیص نہیں کرنی چاہیے جن کا شریعت میں ذکر نہ ہو ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الثمر المستطاب‘‘/۵۷۵۔۵۷۸) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث ’’أَنَّہُ کَانَ یَأْتِیْ قُبَائَ (کُلَّ سَبْتٍ) رَاکِبًا وَمَاشِیًا، (فَیُصَلِّی فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ)۔‘‘ [1] ’’ آپ (ہر ہفتے) سواری پر یا پیدل مسجد قباء آیا کرتے تھے (آپ وہاں (مسجد قبا میں) دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔)‘‘ بیان کرنے کے بعد فرمایا: اس حدیث میں … اس کے مختلف طرق کی بنا پر… بعض صالح اعمال بجالانے اور ان پر دوام اختیار کرنے کے لیے بعض ایام کی تخصیص کے جواز پر دلیل ہے، اور اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ تین مساجد کے علاوہ رخت سفر
Flag Counter