Maktaba Wahhabi

178 - 756
’’بشر (بن المعمر) تلوار کے بغیر اور خون بہائے بغیر عراق پر غالب آیا۔‘‘ اللہ اس بات سے پاک و برتر ہے جو ظالم کہہ رہے ہیں! جب ان پر یہ بیان کیا گیا تو وہ اس سے الگ ہوگئے، ان کے متاخرین میں سے کسی نے کہا جیسا کہ امام زہری نے (ص۲۵) اسے نقل کیا: ’’لیکن تجھ پر استیلاء مخلوق اور استیلائِ خالق کے درمیان فرق مخفی نہیں رہے گا۔‘‘ الکوثری نے ’’الاسماء‘‘ (ص۴۰۶، ۴۱۰) پر اپنے تبصرے میں بیان کیا: ’’جس نے اسے استیلاء کے معنی میں لیا ہے، اس نے اسے ’غلبے‘ کے معنی سے الگ کرکے یہ معنی لیا ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں: جب تم نے ’’استیلاء‘‘ کو ’غلبے‘ کے معنی سے الگ کیا، تو تم نے اپنی تاویل کو خود ہی باطل و لغو قرار دے دیا، کیونکہ عام طور پر استیلاء سے غلبہ لازم آتا ہے جیسا کہ وہ شعر، جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، دلالت کرتا ہے، پس جب تنزیہ کرتے ہوئے استیلاء کو غلبہ سے الگ کرنا ضروری ہے، تو پھر تم نے ویسے ہی کیوں نہ کہہ دیا جس طرح سلف نے کہا ہے کہ ’’استوی کا معنی استعلی (بلند ہوا) ہے۔‘‘ پھر تم نے استعلاء کو ہر چیز سے الگ کرلیا جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں، جیسے مکان و استقرار وغیرہ، خاص طور پر یہ استعلاء سے غیر لازم ہے حتیٰ کہ مخلوق میں، پس آسمان زمین کے اوپر ہے اور وہ اس پر غالب ہے، اس کے باوجود اس نے اس پر قرار نہیں پایا اور نہ ہی اسے اس کی حاجت ہے، پس اللہ تعالیٰ زیادہ حق دار ہے کہ اس کے پاس اپنی ساری مخلوق پر استعلاء سے لازم نہیں آتا کہ اس نے اس پر قرار پایا ہے یا اسے اس کی حاجت و ضرورت ہے۔ وہ اس سے پاک ہے اور وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ اس مثال سے عقل مند قاری کے لیے واضح ہوجاتا ہے کہ سلف کا موقف زیادہ محفوظ، زیادہ مبنی برعلم اور زیادہ مضبوط [1]ہے، جبکہ اس کا مخالف موقف اس طرح نہیں، جبکہ متاخرین علمائے کلام کے نزدیک جو مشہور کردیا گیا ہے وہ ایسے نہیں جیسے ہم نے سلف کے موقف کے بارے میں بتایا ہے۔ ۱۳: یہ کہنا بدعت ہے: اللہ اوپر ہے نہ نیچے، دائیں ہے نہ بائیں، آگے ہے نہ پیچھے، عالم کے اندر ہے نہ اس سے باہر! ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۱/۸ ط، المعارف) میں فرمایا: اور ان میں سے جو کہتا ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) اوپر ہے نہ نیچے، دائیں ہے نہ بائیں، آگے ہے نہ پیچھے، وہ عالم
Flag Counter