کے اندر ہے نہ اس کے باہر! اور میں نے اسے دمشق میں بعض مشائخ سے خطبہ جمعہ میں سنا ہے۔
ان میں سے بعض تعطیل میں حد سے بڑھ گئے، انہوں نے کہا: وہ اس سے متصل ہے نہ اس سے منفصل (جدا)۔
اور یہ (اللہ کی قسم!) کفر اور وجود الٰہی کا انکار ہے، کیونکہ اگر کسی فصیح العرب گفتگو کرنے والے سے کہا جائے: اس معدوم چیز کے بارے میں ہمیں بتائیں جس کا کوئی وجود نہ ہو، تو وہ اس سے زیادہ اس کے متعلق نہیں بتاپائے گا جتنا انہوں نے اپنے رب کے بارے میں بیان کیا ہے!
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۵۳) کے مقدمے میں فرمایا:
علو کی نفی کرنے میں حد سے بڑھے ہوئے لوگوں میں کسی کا یہ قول دوسرا مذہب ہے:
’’اللہ اوپر ہے نہ نیچے، دائیں ہے نہ بائیں، آگے ہے نہ پیچھے، جہان کے اندر ہے نہ اس سے باہر۔‘‘[1]
ان میں سے کوئی فلسفی کہتا ہے:
’’وہ عالم سے متصل ہے نہ اس سے جدا۔‘‘
میں نے کہا: اس نفی سے تو یہ معلوم ہوتا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے، کہ اللہ موجود نہیں، یہ تعطیل مطلق اور سب سے بڑا انکار ہے، اللہ ان ظالموں کی باتوں سے بہت بلند اور پاک ہے۔
جس نے اللہ کے متعلق اس طرح کہا، محمود بن سبکتگین نے اس شخص سے بہت خوبصورت بات کی: ’’تم اس رب کے درمیان، جسے تم ثابت کرتے ہو، اور معدوم کے درمیان ہمیں فرق کرکے بتاؤ۔‘‘ انہوں نے ’’التدمریہ‘‘ (ص۴۱) میں ذکر کیا ہے۔
اور ہمارے شیخ (قدس اللہ روحہ) نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۷/۴۷۵۔۴۷۶) میں فرمایا:
بعض علمائے کلام پر اس قول [2] کے بطلان کی وضاحت ہوئی تو وہ اس قول کی طرف بھاگے جو کہ اس سے بھی زیادہ باطل ہے، اور میں نے اسے بعض خطباء کو جمعہ کے دن منبر پر اپنے کانوں سے سنا:
اللہ، اوپر ہے نہ نیچے، دائیں ہے نہ بائیں، آگے ہے نہ پیچھے، جہاں کے اندر ہے نہ باہر[3] ، اور کسی فلسفی نے اضافہ کیا، وہ اس سے متصل ہے نہ اس سے جدا!
اور یہ وہ تعطیل مطلق ہے جو کسی فصیح ترین شخص کے لیے ممکن نہیں کہ وہ عدم کے متعلق اس سے زیادہ بیان
|