Maktaba Wahhabi

444 - 756
شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱/۶۰۶) میں اس کا انکار اور اس پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا: اس سنت کی کتب السنۃ میں قطعاً کوئی اصل نہیں، حتیٰ کہ موضوعات میں بھی نہیں! میں ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتا جس نے اس کا کہا ہو۔ ۳۔ مسافر کے لیے سفر پر روانہ ہوتے وقت دو رکعت پڑھنے کا استحباب: ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضغیفۃ‘‘ (۱/۵۵۱) میں فرمایا: پھر یہ کہ نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث[1] سے اس پر استدلال کیا کہ مسافر کے لیے مستحب ہے کہ وہ روانہ ہوتے وقت دو رکعتیں پڑھے۔ اس میں غور و فکر کی واضح ضرورت ہے، کیونکہ استحباب ایک شرعی حکم ہے اس پر ضعیف حدیث سے استدلال کرنا جائز نہیں، کیونکہ وہ صرف ظن مرجوح کا فائدہ دیتی ہے اور اس سے احکام شریعت میں سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی، جیسا کہ واضح ہے، یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے نہ مشروع جبکہ سفر سے واپس آکر نماز پڑھنا مشروع اور وارد ہے اور وہ سنت ہے۔ ۴۔ فجر کے دو رکعت فرض ادا کرلینے کے بعد نماز پڑھنا: [2] ہمارے شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے ’’الإرواء‘‘ (۲/۲۳۶) میں حدیث[3] رقم (۴۷۸) کی تخریج کے آخر پر فرمایا: فائدہ…: بیہقی نے سعید بن مسیب سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی کو طلوع فجر کے بعد دو رکعتوں سے زائد پڑھتے ہوئے دیکھا، وہ اس میں بہت زیادہ رکوع و سجود کر رہا تھا، انہوں نے اسے منع کیا تو اس نے کہا: ابومحمد! نماز پڑھنے پر اللہ مجھے سزا دے گا؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، لیکن وہ تمہیں خلاف سنت عمل کرنے پر سزا دے گا۔ یہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے فی البدیع جوابوں میں سے ہے، وہ (جواب) ان بدعتیوں کے خلاف ایک قوی ہتھیار ہے جو بہت سی بدعات کو اس نام سے اچھا تصور کرتے ہیں کہ وہ ذکر اور نماز ہی تو ہے، پھر وہ اہل السنۃ پر ان کے ان پر اس اعتراض پر اعتراض کرتے ہیں اور ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ (اہل السنہ) ذکر و نماز پر اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ حقیقت میں ذکر و نماز اور اس طرح کے امور میں سنت کی مخالفت کی وجہ سے ان پر اعتراض کرتے ہیں۔ ۵۔ وہ نماز جو کسی خاص وصف پر مشتمل ہو جس کے وصف کے متعلق کتاب و سنت سے کوئی نص وارد نہ ہو:
Flag Counter