کی بنا پر تقریباً تیس سال اس پر عمل کیا، پس جب مجھے پتہ چلا کہ یہ موضوع ہے تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ کسی نے مجھے کہا: کیا وہ نیک کام نہیں؟ میں نے کہا: نیک کام مشروع ہونا چاہیے، پس جب ہمیں پتہ چلا کہ یہ کذب ہے تو وہ شریعت سے خارج ہوگیا۔‘‘
میں کہتا ہوں: جب وہ عمل شریعت سے خارج ہو گیا تو اس میں کوئی خیر نہ رہی، کیونکہ اگر وہ خیر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی امت تک پہنچاتے اور اگر آپ پہنچاتے تو ثقہ راوی اسے روایت کرتے، اور اسے روایت کرنے والا کوئی ایسا اکیلا شخص نہ ہوتا جو ثقہ راویوں سے مضطرب روایتیں روایت کرتا ہے۔
ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنے بارے میں جو بیان کیا ہے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے، بے شک اس دور کے اور اس سے پہلے دور کے اکثر علماء کا یہی حال ہے کہ وہ اپنے مشائخ سے سنی ہوئی ہر حدیث کے ذریعے اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور وہ اس کے صحیح ہونے کے بارے میں اس کی کوئی تحقیق نہیں کرتے، پس وہ ان کے متعلق محض حسن ظن ہی رکھتے ہیں، پس اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے کسی دوسرے شخص میں سامانِ عبرت دیکھا تو نصیحت حاصل کی۔
۱۰: عبادات تجربوں سے حاصل نہیں کی جاتیں
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الکلم الطیب‘‘[1] کی تخریج میں (ص۱۴۶۔۱۴۷) پر حدیث نمبر (۱۷۷)[2] کے تحت فرمایا:
یہ مقطوع ہے، کیونکہ وہ یونس بن عبید کا قول ہے، وہ ثقہ تابعی ہیں مگر ان تک سند صحیح نہیں، اس میں منہال بن عیسیٰ مجہول راوی ہے، پھر یہ کہ مقطوع روایت بالاتفاق حجت نہیں، مؤلف رحمہ اللہ نے تو اسے اس لیے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس کا تجربہ کیا ہے، جیسا کہ اس کے آخر پر ان کا قول ہے: ’’ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے…‘‘، ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’الوابل الصیب‘‘ میں ص ۱۷۱ پر صراحت کی ہے کہ وہ ان کے شیخ (ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) کا قول ہے، لیکن تجربہ سے شرائع ثابت نہیں ہوتے۔
ہمارے شیخ نے مشکوٰۃ (۱/۶۰۱)[3] میں حدیث (رقم ۱۹۲۶) کے تحت یہ فرمایا:
’’جو شخص عاشوراء کے دن اپنے عیال پر خرچ کرنے میں کشادگی سے کام لیتا ہے، اللہ سال بھر اس کی
|