بالفاظِ دیگر حدیث صحیح ہوتی ہے یا ضعیف، جب وہ صحیح ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور جب ضعیف ہو، تو کیا حیثیت رکھتی ہے؟
کیا دونوں حالتوں میں حدیث سے تفسیر نہیں کی جاسکتی؟! لیکن اس حالت میں جب وہ ضعیف ہو تو اس تفسیر کی کیا قیمت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہ ہو؟
بہرحال! یہ کلام انتہائی کمزور اور بے ربط ہے، وہ اس جہمی کے ابہام کی دلیل ہے، یہ صرف اس کی زبان ہی پر نہیں، بلکہ اس کی سوچ میں بھی ہے، کیونکہ جس وقت وہ قطعی طور پر کہتا ہے کہ اس بات پر دلیل ہے کہ رسول نے سب سے پہلے تاویل کی جیسا کہ بیان ہوا، اور وہ دوسرے مواقع پر اس کا تکرار کرتا ہے، وہ (ص۸۰) کہتا ہے:
’’جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے استواء کی استیلاء سے تفسیر بیان کی تو یہ بعینہٖ وہی تاویل ہے‘‘! جب وہ یہ بات کہتا ہے جس کا اسے شعور نہیں رہتا کہ وہ اس کے ذریعے اپنے نظریے کی عمارت کو گرادیتا ہے، اور یہ اس کے حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے سے لاعلمی کی وجہ سے ہے، تو کس طرح جبکہ اس نے تیسری جگہ پر اس کے ضعف کے متعلق جزم کے ساتھ صراحت کی ہے، اس نے (ص۱۰۳) کہا:
’’میں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استواء کی استیلاء سے تفسیر کی ہے، اگرچہ اثر (روایت) ضعیف ہے، وہ تفسیر میں اس سے مانوس ہے۔‘‘
لہٰذا وہ دلیل نہیں، کیونکہ دلیل سے صرف مانوس ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، بلکہ اس سے دلیل لینا ہوتی ہے، لہٰذا اس کے لیے کس طرح جائز ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹ گھڑے، وہ کہتا ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’استواء‘‘ کی ’’استیلاء‘‘ سے تفسیر کی ہے‘‘؟ تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
پھر اس تاویل کا کیا فائدہ جسے اشاعرہ اور ان کے علاوہ جہمیہ اور معطلہ نے بھی اختیار کیا، ، جب کہ بذات خود وہ تاویل کے بغیر اسے قبول نہیں کرتے؟ یہ اس لیے کہ اہل السنہ نے ان پر حق واضح کیا کہ استواء کی استیلاء سے تاویل کرنے کا معنی ہے کہ وہ اس سے پہلے اس پر غالب و قابض نہیں تھا، خاص طور پر اس آیت کے مدنظر رکھنے سے کہ جس میں ہے: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف:۵۴) ’’پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ کیونکہ ’’ثم‘‘ تراخی کا فائدہ دیتا ہے جیسا کہ معلوم ہے، یہ ایسی تاویل ہے جسے کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا، کیونکہ یہ اس میں صریح ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے اس پر غالب نہیں تھا، بلکہ وہ اپنے امر پر مغلوب تھا، پھر وہ اس پر غالب ہوا! خاص طور پر جبکہ وہ اس شعر سے دلیل لیتے ہیں:
قَدِ اسْتَوٰی بِشْرٌ عَلَی الْعِرَاقِ
بِغَیْرِ سَیْفٍ وَ(لَا) دَمٍ مُھْرَاقِ
|