’’یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے: تم نے جو کہا ہے کیا اس پر دلیل موجود ہے؟ ہاں، دلیل موجود ہے، ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب ’’العلو‘‘ میں بیان ہوا ہے۔‘‘
پھر اس نے وہ تحریف شدہ حدیث بیان کی، پھر کہا:
’’تم نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿اسْتَوٰی عَلَی﴾ کی اس طرح تاویل کی: ﴿اسْتَوْلٰی عَلَیْہِ﴾ ’’اس پر غالب آیا‘‘، اس نے کہا:
’’اور اس طرح تاویل کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی پیروی کرتے ہیں کہ وہ ہر لفظ کو، جس سے تجسیم سمجھ آتی ہو، اس کے ظاہر سے دوسرے لفظ میں بدل دیتے ہیں جو اس سے اس چیز (تجسیم) کی نفی کرتا ہو۔‘‘
میں کہتا ہوں: اس طرح اس نے معتزلہ کو ہتھیار فراہم کردیا جو تاویل کے ذریعے اللہ کی بہت سی صفات جیسے سمع و بصر اور اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا انکار کرتے ہیں، جس کا انجام تعطیل ہے، اسی مؤلف نے ان سے (ص۱۲۳ پر) بیان کیا:
’’دعویٰ کرنا کہ اللہ کی رؤیت محال ہے، پس وہ جسمیت کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ جسمیت اور جہت ان کے ہاں کفر ہے۔‘‘
میں نے کہا: یہ احمق مؤلف کئی جگہوں پر اس کی صراحت کرتا ہے، تو معلوم ہوا کہ اس کے نزدیک معتزلہ حق پر ہیں، بلکہ وہ انہی میں سے ہے، اگرچہ وہ ظاہر کرے کہ وہ اہل السنۃ والجماعۃ میں سے ہے! وہ اللہ کے اپنی مخلوق پر علو کا منکر ہے، اور یہ کہ قرآن اللہ کا حقیقتاً کلام ہے، اور وہ یہ دلیل لیتا ہے کہ یہ تو تجسیم و تشبیہ ہے! اور وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ آخرت میں اللہ کی رؤیت پر ایمان رکھتا ہے، اس میں وہ اشاعرہ کی پیروی کرتا ہے، اور وہ لاعلمی کا اظہار کرتا ہے کہ اس کے مذہب کے مطابق اس سے تجسیم لازم آتی ہے؛ اور اسی طرح جہت ہے۔
لیکن یہ وہ ہتھیار ہے جو ہتھیار جاری رہنے والا نہیں، کیونکہ اس کی بنیاد ایک ایسی حدیث پر ہے جس کی بنیاد صرف اس کے کند ذہن میں ہے۔
اور اس کی گمراہی یہ بھی ہے کہ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ معترض اس پر اعتراض کرسکتا ہے کہ وہ حدیث ضعیف السند ہے، وہ جلدی سے اس طرح اس کا جواب دیتا ہے:
’’حدیث خواہ صحیح ہو یا ضعیف، وہ اس سے کم نہیں کہ اسے تفسیر پر محمول کیا جائے۔‘‘
احمق! یہ کیسا کلام ہوا؟!! صحیح حدیث سے ثابت ہونے والی تفسیر کے مقابلے میں آنے والی تفسیر کی کیا حیثیت ہے؟
|