’’رہا امام ابوالحسن اشعری کا استواء کی استعلاء سے تفسیر کو ردّ کرنا، تو ہم اس میں اس کی کبھی موافقت نہیں کریں گے، اور ہم کہتے ہیں: انہوں نے یہ اس فعل کے ردّ کے باعث کیا ہے جو انھیں معتزلہ سے حاصل ہوا اور وہ اگرچہ ہم ان سے ان کے بہت سے مسائل میں موافقت نہیں کرتے، مگر ہم یہاں ان سے موافقت کرتے ہیں اور ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ اس مسئلے میں حق پر ہیں‘‘!
یعنی: ان کے اللہ کے اپنی مخلوق پر بلند ہونے کے انکار کے بارے میں، لیکن معتزلہ اور ان جیسے اباضیہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے، اور یہ اس میں سے جس کا یہ جاہل نام نہاد عالم بہت سختی سے انکار کرتا ہے، اور جو اس کے متعلق بات کرتا ہے وہ اس کے کافر ہونے کی تصریح کرتا ہے، اور وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ بلا مکان موجود ہے! یعنی یہ (عقیدہ رکھتا ہے) کہ وہ عرش پر نہیں، جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی آیات میں بتایا ہے، اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں خبر دی، اس بارے میں ’’احادیث ضعیفہ‘‘ میں حدیث رقم (۶۳۳۲) کے تحت اس کے کلام کا مطالعہ کریں۔
اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۱۷/۵۰۳۔۵۰۷) میں فرمایا:
تنبیہ:… حافظ الذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب ’’العلو‘‘ (ص۹۸، ط: الہند، اور ص ۱۱۔ ط: المنار) میں ذکر کیا ہے۔ حماد بن سلمہ تک سند ذکر کی اور اضافہ نقل کیا:
(( ثم استوی علیہ۔))
مگر یہ کہ اس نے طبع المنار میں اس لفظ کی تحریف کی اور اس میں کہا:
(( استولی علیہ!! ))
اور جو طبع ہندیہ میں ہے وہ درست ہے؛ کیونکہ وہ مخطوطہ ظاہریہ (ق۷/۱) کے مطابق ہے، کیونکہ انہوں نے ’’العلو‘‘ میں اسحاق بن راہویہ کی روایت سے یوں تفسیر کی ہے:
’’پھر عرش تھا، پس وہ اس پر بلند ہوا۔‘‘
اس تحریف کو شام کے کسی جہمی نے (جہالت یا تجاہل کے طور پر) خاص مقصد کے لیے استعمال کیا، اس نے اپنی کتاب جیسا کہ اس کا زعم ہے… میں کہا: ’’اللہ تعالیٰ کے بارے میں سلف و خلف کا یہ عقیدہ ہے…‘‘ اس نے (ص۷۸) پر درج ذیل عنوان سے ایک مفصل قائم کی ہے:
((التاویل والرسول۔ علیہ الصلوۃ والسلام…)) اس میں اس نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرش پر استواء کی استیلاء سے تفسیر کی ہے اور انہوں نے اس کے ذریعے اپنی امت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ ان کے اثر کی پیروی پر ہر چیز کی، جس کا ظاہر تجسیم کا شبہہ ڈالے، تاویل کرے اور کہا:
|