Maktaba Wahhabi

174 - 756
افسوس ہے کہ علامہ ابن الجوزی، المشبہۃ کی تردید کرتے ہوئے بھی یہ کلام ان سے سرزد ہوا ہے، انہوں نے اپنی کتاب، جس کا پیچھے تذکرہ ہوا، میں ’’الاستواء‘‘ کی ’’استیلاء‘‘ سے تاویل کی اور اس پر الاخطل النصرانی کے مشہور شعر سے اس پر استدلال کیا: قَدِ اسْتَوٰی بِشْرٌ عَلَی الْعِرَاقِ بِغَیْرِ سَیْفٍ وَ(لَا) دَمٍ مُھْرَاقِ ’’بشر (بن المعمر) تلوار کے بغیر اور خون بہائے بغیر عراق پر غالب آگیا۔‘‘ اور انہوں نے (استیلاء کے) صحیح معنی کو، جو کہ استعلاء ہے، ردّ کرنے میں فلسفیانہ انداز اختیار کیا، انہوں نے کہا: ’’اس لیے یوں کہنا چاہیے: وہ عالم میں داخل ہے نہ اس سے خارج۔‘‘ اور حسن السقاف نے اس باطل نفی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جسے کسی معروف امام نے پہلے بیان نہیں کیا، اور جس میں ذرہ بھر علم نہیں جیسا کہ نفی کرنے والوں کی حالت ہے، اور اس کے عجوبوں اور جہالتوں میں سے ہے کہ وہ ابن الجوزی کی اس مسئلے میں تقلید کرتا ہے جو وہ مشتبہ کا انکار کرتے ہیں: ’’وہ ’اپنی ذات کے ساتھ‘ عرش پر مستوی ہے۔‘‘ جبکہ ابن الجوزی (ص۱۲۷) اس لفظ ’’بذاتہ‘‘ (اپنی ذات کے ساتھ) کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ لفظ (بذاتہ) زیادہ ہے، منقول نہیں۔‘‘ سبحان اللہ! اس طرح کا اضافہ جس کے ذریعے تعطیل کی تردید مراد لی جائے اس کا انکار کیا جائے گا، اس لیے کہ وہ منقول نہیں، اور اس کا قول متقدم: ’’لیس بداخل…‘‘ ’’وہ داخل نہیں…‘‘ اس کا انکار نہ کیا جائے، اے اللہ! یہ تو بڑے گناہوں میں سے ایک ہے!! اسی طرح اس نے ابن الجوزی کی استواء کی آیت کی تاویل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، بلکہ اسے برقرار رکھا، کیونکہ اس نے (ص۱۲۳) طویل کلام کے بعد صراحت کی ہے۔ اس نے اس میں بہت تحریف اور کذب بیانی کی ہے، اب اسے بیان کرنے کا موقع نہیں، انہوں نے کہا: ’’ہمارے نزدیک ’’استواء‘‘ سے مراد استیلاء، قہر یا یہ کہ اس کا معنی اللہ ہی جانتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے کہا: یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے بعد میں حق کو نہیں پہچانا، اس لیے کہ اسے تاویل اور تفویض کے درمیان تردّد ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اس کا یہاں تفویض کو ذکر کرنا، اس کی طرف سے ہیرا پھیری اور ان قارئین کو جو اس کے تاویل کرنے کو ناپسند کرتے ہیں دھوکا دینا اور گمراہ کرنا ہے، اس نے اس کے بعد (ص۱۲۷) کہا ہے[1] :
Flag Counter