دیکھیں گے۔
ہم تاویل کرنے والوں سے پوچھتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرنے والا کون ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس پر غلبہ اور اس سے اپنے ملک پر قبضہ حاصل کرسکے؟
اور یہ ایسا الزام ہے وہ اس سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں کہ وہ اپنی تاویل سے باز آجائیں اور سلف کی تفسیر کی طرف پلٹ آئیں، جب ان کے متکلمین میں سے کوئی اس سے آگاہ ہوا تو اس نے چالاکی دکھائی! وہ یہ کہ اس نے ’’استواء‘‘ کے اس معنی ’’الاستیلاء‘‘، جو کہ وہ اپنے ہاں مراد لیتے ہیں، کی تاویل کردی اور کہا کہ اس استیلاء میں ایک دوسرے پر غالب آنے کا معنی نہیں ہے!
میں نے کہا: یہ لغت کے مخالف ہے (جیسا کہ ابن الاعرابی کے حوالے سے بیان ہوا) اس کے متعلق یوں کہنا کتنا اچھا ہے کہ یہ تاویل کی تاویل ہے! کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کس چیز نے انہیں ان پریشانیوں میں مبتلا کردیا، کیا ان کے لیے یہ زیادہ بہتر نہیں تھا کہ وہ یوں کہتے: استعلی (بلند ہوا) استعلاء مشابہت سے خالی ہے، یہ استعلاء اگر لغت کے اعتبار سے ہوتا تو اس سے مشابہت لازم نہیں آتی، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ وہ لازمہ نہیں؟ کیونکہ قرآن میں استواء … لغت کے علاوہ… اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوکر بیان ہوا ہے، جیسا کہ عرش پر استواء کی آیات میں ہے، ان میں سے کچھ بیان ہوچکی ہیں اور یہ لفظ (استواء) اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف بھی منسوب ہوا ہے، جیسا کہ نوح علیہ السلام کی کشتی کے متعلق فرمایا: ﴿وَ اسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ﴾ (ھود:۴۴) ’’اور وہ (کشتی) جودی (پہاڑ) پر جاٹھہری۔‘‘ اور نباتات کے متعلق ہے: ﴿فَاسْتَوٰی عَلَی سُوْقِہٖ﴾ (الفتح:۲۹) ’’پس وہ اپنے تنے پر کھڑی ہوجاتی ہے۔‘‘ پس کشتی کا استواء اور نباتات کا استواء ایک جیسا نہیں، اسی طرح آدمی کا سواری پر استواء اور پرندے کا انسان کے سر پر استواء برابر نہیں اور اس کا سطح پر استواء بھی مختلف ہے۔ اگرچہ یہ سب استواء ہیں، لیکن ہر چیز کا استواء اس کے حساب سے ہے، وہ لفظ میں تو مشترک ہے لیکن حقیقت میں مختلف ہے، پس اللہ تعالیٰ کا استواء اور استعلاء اسی طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔
رہا استیلاء: تو اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر مطلق طور پر صرف متکلمین کی زبانوں پر ہی ہوتا ہے! غور کرو اس کلام نے اپنے اہل کے ساتھ کیا کیا، ان کے لیے مزین کردیا گیا کہ وہ اللہ کو کسی ایسی چیز سے متصف کریں حالانکہ وہ مخلوق کی طبیعت اور اس کے خاصے میں سے ہے، اور وہ اس پر راضی نہ ہوئے کہ وہ اسے اس استعلاء سے موصوف کریں جس سے کوئی چیز مشابہت و مماثلت نہیں رکھتی اور اس کے متعلق سلف نے کہا ہے، اس کے بعد کوئی عجب نہیں کہ وہ اس کلام اور اس کے اہل کی مذمت پر جمع ہوجائیں۔
ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۷/۴۷۶۔۴۷۷) میں فرمایا:
|