یا نہیں؟ کیا قبر کو برابر رکھا جائے گا، یا اس پر کوئی رکاوٹ/ پردہ یا کوئی دیوار بنائی جائے گی؟ آپ نے جواب دیا: الحمد للّٰہ! ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قبر پر مسجد نہیں بنائی جائے گی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم سے پہلے لوگ قبروں کو سجدہ گاہ بنایا کرتے تھے، سن لو تم قبروں کو سجدہ گاہ/ مساجد نہ بناؤ، میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘
اور یہ کہ میّت کو مسجد میں دفن کرنا جائز نہیں، اگر مسجد دفن سے پہلے ہو تو اسے بدل دیا جائے گا یا تو قبر کو برابر کرکے یا اسے اکھاڑ کر اگر وہ نئی ہو، پس اگر مسجد قبر کے بعد بنائی گئی ہو تو مسجد کو ختم کیا جائے گا یا پھر قبر کی صورت ختم کردی جائے گی، وہ مسجد جو قبر پر ہو اس میں فرض پڑھے جائیں گے نہ نفل، کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔‘‘ اسی طرح آپ (شیخ الاسلام) کے ’’فتاویٰ‘‘ (۱/۱۰۷، ۲/۱۹۲)، میں ہے۔
مصر میں دار الافتاء نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے اس فتویٰ کو اختیار کیا ہے، میں نے انھیں کے ایک فتویٰ میں اسے نقل کیا ہے جس میں مسجد میں دفن کرنے کے عدم جواز کی صراحت ہے، جو اس کا مطالعہ کرنا چاہے تو وہ ’’مجلہ الازہر‘‘ (ج۱۱ ص ۵۰۱۔ ۵۰۳) دیکھے۔ [1]
اور ابن تیمیہ نے ’’الإختیارات العلمیۃ‘‘ (ص۵۲) میں بیان کیا:
’’قبروں پر چراغاں کرنا اور ان پر مساجد بنانا حرام ہے، انھوں نے اسے بیان کیا اور اس کے ہٹانے کی تعیین فرمائی، اور میں معروف علماء کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں دیکھتا۔‘‘
اور ابن عروہ حنبلی نے ’’الکواکب الدراری‘‘ (۲/۲۴۴/۱) میں اسے نقل کیا اور اسے تسلیم کیا۔
اور ہم اسی طرح دیکھتے ہیں کہ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے جو قبروں پر مساجد بنانے کی حرمت پر احادیث دلالت کرتی ہیں، پس ہم مومنوں کو ان کی مخالفت کرنے اور ان کے طریق سے بغاوت کرنے سے اس اندیشے کے پیش نظر ڈراتے ہیں کہ کہیں اللہ عزوجل کے اس فرمان کی وعید ان کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے:
﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo﴾ (النساء:۱۱۵)
’’جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کی راہ کے علاوہ کوئی اور راہ تلاش کرے گا تو وہ جدھر پھرنا چاہے گا ہم اسے ادھر ہی پھیردیں گے اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘
|