اس سے منصف قاری کے لیے الکوثری کی حدیث سے سنداً و معنیً وابستگی کا سقوط ظاہر ہوجائے گا، اسے وہ ’شاہد‘ فائدہ نہیں دے گا جسے اس نے عبد المہیمن بن عباس کی روایت سے ذکر کیا جو سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے طبرانی[1] میں ہے اور اس میں ہے:
’’…جب آپ کے لیے محراب بنا دیا گیا، آپ اس کی طرف بڑھے…‘‘
یہ اس لیے کہ یہ الفاظ: ’’آپ کے لیے محراب بنا دیا گیا‘‘، منکر ہیں، ان الفاظ کے ساتھ عبد المہیمن کا تفرد ہے، جبکہ اسے کئی ایک نے ضعیف قرار دیا ہے، جیسا کہ الکوثری نے کہا، جبکہ حقیقت میں اس کا حال اس سے برا ہے، بخاری نے اس کے متعلق کہا: ’’منکر الحدیث‘‘۔
نسائی نے کہا: ’’وہ ثقہ نہیں۔‘‘
وہ شدید ضعیف ہے، اس سے استشہاد نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ مصطلح الحدیث میں ثابت ہے، یہ تب ہے اگر اس کی روایت کے الفاظ وائل کی روایت کے الفاظ کے موافق ہوں، یہ کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ وہ دونوں بہت زیادہ مختلف ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا!
رہا الکوثری وغیرہ کا اس دلیل سے محاریب کو مستحسن سمجھنا کہ اس میں ایک ثابت شدہ مصلحت ہے، وہ قبلے کی راہنمائی کرتا ہے، تو وہ کئی لحاظ سے کمزور دلیل ہے:
۱: بے شک اکثر مساجد میں منبر ہیں، وہ اس مصلحت کو بخوبی ادا کرتے ہیں، اس میں محاریب کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، اگر وہ انصاف کریں تو اس مسئلے میں دو مختلف چیزوں کے درمیان اتفاق ہونا چاہیے! انہوں نے اس چیز کو باقی رکھتے ہوئے جس پر جمہور ہیں اور ان کی رضا مندی کے لیے عذر کی طرف جلدی کرنے کی کوشش نہ کی۔
۲: یہ کہ جو حاجت و مصلحت کے لیے شروع کیا گیا، تو چاہیے کہ مصلحت کے تقاضے پر ٹھہرا جائے، اور اس پر کوئی اضافہ نہ کیا جائے، اگر تو مسجد میں محراب سے غرض یہ ہے کہ وہ قبلے پر راہنمائی کرتا ہے، تو یہ تو چھوٹے سے محراب سے حاصل ہوجاتی ہے کہ اس میں نشان لگالیا جائے، ہم اکثر مساجد میں اتنے بڑے محاریب دیکھتے ہیں کہ ان میں امام چھپ جاتا ہے اس پر یہ اضافہ کریں کہ وہ زینت و نقوش کی جگہ بن گیا ہے جو نمازیوں کو غافل کرتے ہیں اور انھیں نماز میں خشوع اور اس میں فکر کی ترکیز کرنے سے دور کرتے ہیں، یہ قطعی ممنوع ہے۔
|