Maktaba Wahhabi

134 - 756
پابندی کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ وہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قرب کا قصد نہیں کرتا، اور رہا یہ کہ اگر اسے طریقہ بنالیا جائے اور اسے کتابوں میں لکھ دیا جائے اور تمام لوگ اس کی پابندی کریں جیسا کہ نمازوں اور اوراد کے بعض صیغے، جیسے وہ نماز جو صلاۃ ناریہ کے نام سے معروف ہے جس میں (۴۴۴۴) عدد کی پابندی کی جاتی ہے۔ اس طرح کے اکثر لوگ یہ گمان کریں گے کہ وہ مشروع ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے پس اس وقت کوئی عقل مند شخص اس بارے میں شک نہیں کرے گا کہ یہ مشروع نہیں، میں ایک شیخ کو جانتا ہوں کہ جب وہ سفر پر جاتے تو ’’دلائل الخیرات‘‘ کی کتاب ساتھ رکھتے تھے۔ اس میں ہر دن کا وظیفہ تھا، کبھی ایسا ہوتا کہ ان کی تلاوت قرآن تو چھوٹ جاتی لیکن ان کا ’’دلائل‘‘ سے ورد نہیں چھوٹتا تھا، میں ان سے اس بارے میں پوچھتا تھا تو وہ کہتے: تلاوت قرآن کی قضا تو ہر روز میں ممکن ہے، اور رہا ’’دلائل‘‘ کا ورد تو وہ اپنے دن کے ساتھ مخصوص ہے! کیا یہ دین میں شریعت سازی نہیں؟ فاللّٰہ المستعان۔ ۴: قاعدہ: اذکار میں آواز پست رکھنا اصل ہے ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۷/۴۵۴۔۴۵۶) میں حدیث رقم (۳۱۶۰)[1] کے تحت فرمایا: یہ یا اس کے علاوہ کوئی اور ذکر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اسے بلند آواز سے پڑھنے کے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول گواہی دیتا ہے: جس وقت لوگ فرض نماز پڑھ کر فارغ ہوتے اس وقت بلند آواز سے ذکر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ثابت ہے، جب میں اس (ذکر) کو سنتا تو میں جان لیتا کہ وہ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں۔ امام بخاری، امام مسلم اور ابوعوانہ اور دیگر ائمہ نے اسے روایت کیا ہے اور وہ صحیح سنن ابی داؤد (۹۲۰۔۹۲۱) میں بھی ہے اور وہ روایت اس طرح ہے: (( کُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَائَ صَلَاۃِ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم بِالتَّکْبِیْرِ۔)) ’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اختتام اللہ اکبر (کی آواز) سے پہچانتا تھا۔‘‘ میں نے کہا: اللہ اکبر کہنے کی یہ روایت ہوسکتا ہے بالمعنی ہو اور محفوظ روایت جو کہ اس سے پہلے ہے وہ ’’ذکر‘‘ سے متعلق ہے، کیونکہ ’’صحیحین‘‘ ان کے علاوہ ’’السنن‘‘، ’’المسانید‘‘ اور ’’المعاجم‘‘ وغیرہ میں جو اذکار وارد ہیں وہ بہت زیادہ ہیں، حافظ طبرانی رحمہ اللہ نے ان میں سے بہت زیادہ اذکار لے کر اپنی کتاب ’’الدعاء‘‘ (۲/۱۰۸۶۔۱۱۳۶) سے ’’جامع أبواب القول فی أدبار الصلوات‘‘ میں جمع کیے ہیں، ان میں کہیں بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter