فرض نماز کے بعد اللہ اکبر کہا کرتے تھے، حتیٰ کہ ان اذکار میں بھی نہیں جن کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ترغیب دی کہ وہ اپنی نمازوں کے بعد پڑھا کریں، شاید سورۃ الاسراء کی آیت: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا…وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا﴾ (الاسراء:۱۱۱) کی قراء ت کے بارے میں ایک حدیث ہے۔
اسے روایت کرنے میں امام طبرانی اکیلے ہیں اور وہ حدیث منکر ہے جیسا کہ میں نے اسے ’’الضعیفۃ‘‘ (۶۳۱۷) میں بیان کیا ہے۔
پھر یہ کہ اذکار میں آواز پست رکھنا اصل ہے، جیسا کہ اس کے متعلق کتاب و سنت میں دلائل ہیں البتہ استثنائی صورت الگ ہے، [1] خاص طور پر جب بلند آواز نمازی یا ذکر کرنے والے کے لیے باعث تشویش ہو اور پھر خاص طور پر جب اجتماعی آواز کے ساتھ ذکر کیا جائے، جس طرح وہ عرب کے بعض علاقوں میں تہلیلات عشر کے بارے میں کرتے ہیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی پروا نہیں کرتے:
((یَااَیُّہَا النَّاسُ! کُلُّکُمْ یُنَاجِیْ رَبَّہُ، فَلَا یَجْہَرْ بَعْضُکُمْ عَلَی بَعْضٍ بِالْقِراءۃ، فَتُؤذُوْا الْمُؤمِنِیْنَ۔))
’’لوگو!تم سب اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہو، تو تم ایک دوسرے سے بلند آواز سے قراء ت نہ کرو کہ (اس طرح) تم مومنوں کو ایذا پہنچاؤ گے۔‘‘
یہ حدیث صحیح ہے، امام مالک، امام ابوداؤد اور امام ابن خزیمہ اور دیگر نے اسے روایت کیا ہے، صحیح سنن ابی داود (۱۲۰۳) میں بھی ہے اور امام ابن خزیمہ نے (۲/۱۹۰) اس طرح باب مقرر کیا ہے:
’’باب الزجر عن الجہر بالقراءۃ فی الصلاۃ إذ تأذی بالجہر بعض المصلین غیر الجاھربہا۔‘‘
اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے ’’الأم‘‘ (۱/۱۱۰) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث مذکور کے بعد فرمایا:
میں امام اور مقتدی کے لیے پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اللہ کا ذکر کریں اور وہ پست آواز سے ذکر کریں، مگر یہ کہ امام سے سیکھنا واجب ہو تو وہ بلند آواز سے ذکر کرے حتیٰ کہ معلوم ہوجائے کہ اس سے سیکھ لیا گیا ہے، پھر وہ آواز پست کردے، کیونکہ اللہ عزوجل فرماتا ہے:
﴿وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا﴾ (الاسراء:۱۱۰)
’’اور اپنی صلاۃ (نماز، دعاء) نہ تو بلند آواز سے کر نہ بالکل چپکے چپکے۔‘‘
|