Maktaba Wahhabi

136 - 756
یعنی( واللہ اعلم): ’’صلاۃ‘‘ کا معنی ہے دعاء ’’ولا تجہر‘‘ ’’بلند نہ کر۔‘‘ ولا تخافت‘‘ ’’نہ پست کر‘‘ کہ تم خود بھی نہ سنو، اور میرا خیال ہے کہ ابن زبیر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تہلیل کے حوالے سے اور ابن عباس نے آپ کی تکبیر کے حوالے سے جو ذکر کیا ہے… وہ یہ ہے کہ آپ نے تھوڑی سی بلند آواز سے ذکر کیا، تاکہ لوگ آپ سے سیکھ لیں اور یہ، کیونکہ عام روایات جو ہم نے لکھی ہیں۔ اس کے ساتھ اور جو اس کے علاوہ ہیں۔ ان میں سلام پھیرنے کے بعد تہلیل (لا الہ الا اللہ) کا ذکر ہے نہ تکبیر کا، یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ نے نماز کے بعد ذکر کیا جیسا کہ بیان ہوا، اور آپ کا ذکر کے بغیر نماز سے فارغ ہونا بھی مذکور ہے، اُمّ سلمہ نے آپ کا ٹھہرنا ذکر کیا ہے اور آپ نے بلند آواز سے ذکر نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ صرف پست آواز ہی سے ذکر کیا کرتے تھے۔‘‘ میں نے کہا: تحقیق وفقہ میں ان امام صاحب کی طرف سے یہ غایت و انتہا ہے، جزاہ اللّٰہ خیرا۔ اور میں کہتا ہوں: جب سنت سے یہ ثابت ہے کہ امام تعلیم کی غرض سے کبھی کبھی سری نماز میں (کوئی آیت) بلند آواز سے پڑھ سکتا ہے، جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں ہے: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی نماز میں انہیں آیت سنا دیا کرتے تھے یہ صحیح ابی داؤد (۷۶۳) میں بھی مذکور ہے، جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح مروی ہے کہ آپ انہیں دعائے استفتاح ’’سبحانک اللہم…‘‘ سنایا کرتے تھے، اسود بن یزید نے کہا: ’’آپ ہمیں یہ سناتے اور اس کی ہمیں تعلیم دیتے تھے۔‘‘ (الإرواء: ۲/۴۸۔۴۹) میں کہتا ہوں: جب یہ جائز ہے تو پھر اسی غرض یعنی سکھانے کے پیش نظر نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا زیادہ جائز ہے، اور یہ واضح ہے۔ والحمد للّٰہ۔
Flag Counter